بلاگ

ایم کیوایم؛ اصل چپلقش کی فرضی کہانی

بلاگ: اے بی رؤف

 

سینٹ الیکشن کیا آئے، جمہوریت کے حسن کا اصل چہرہ نظر آگیا۔ جمہوریت کی دلہنیا نے سب سے پہلے اپنا رخِ زیبا بلوچستان میں دکھایا، اس منہ دکھائی کی میزبانی کے فرائض آصف علی زرداری صاحب نے بڑی فہم و فراست سے ادا کیے۔ سنا ہے ایوان بالا کا درجہ پارلیمنٹ سے بلند ہوتا ہے اس لیے قیمت بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سنار نے ایم کیو ایم پاکستان کی نیندیں ہی چھین لیں۔

دوسری طرف بہادر آباد عرف رابطہ کمیٹی، پی آئی بی عرف فاروق ستار بھائی باہم دست و گریبان نظر آتے ہیں۔ چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والے کا نام میڈیا ہے۔ اب تو نومولود بچوں کے نام بھی پریس کانفرنسوں میں رکھے جارہے ہیں۔ فاروق بھائی انٹرا پارٹی الیکشن جیت کر بھی سہمے سہمے نظر آتے ہیں اور رابطہ کمیٹی اپنی ہی چھری کے نیچے سانس لے رہی ہے۔ فاروق بھائی کو ایک بار تو اماں بی نے بچالیا تھا۔ والدہ محترمہ اس مرتبہ پھر بیٹے کو پیشکش کی تھی کہ میں پھر کچھ کروں! مگر فاروق بھائی نے کہا کہ نہیں اماں، اس بار بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔

پی آئی بی اور بہادرآباد کے درمیان جاری دنگل کے 50 راؤنڈز ابھی تک براہ راست نشر ہو چکے ہیں ایک اور نامکمل راؤنڈ صبح چار بجے فاروق ستار بھائی کے دھوبی پٹکے پر ختم ہوا۔ لندن والے کراچی کے حالات دیکھ کر گھونٹ گھونٹ کرکے پی رہے ہیں۔

بہادر آباد اور پی آئی بی بھرپور اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا بھرپور احترام بھی کررہے ہیں۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں یعنی اخلاق، محبت، ادب اور آداب، مار دھاڑ، بھتے کی پرچی، آپ ان کو کسی بھی روپ میں دیکھ لیجیے۔

فیصل سبزواری بھائی نے فاروق بھائی کو محبت کے دن ٹوئٹر پر پکارا ’’آجائیں‘‘ اور پھر اپنے اصل جذبات پر قابو پاتے ہوئے فرطِ جذبات سے گلے بھی لگالیا۔ یعنی پہلے پگڑی اتاری اور اب چپل کھینچنے پر غور کر رہے ہیں۔ ایم کیوایم بہادر آباد اور پی آئی بی کے اسکرپٹ رائٹر بڑی محنت سے کہانیاں لکھ رہے ہیں۔

فیصل سبزواری بھائی، فاروق بھائی سے مخاطب ہوئے اور بولے ’’آپ کو ایک بندے کی خاطر یہ سب نہیں کرنے دیں گے۔‘‘

’’ابے کیا نہیں کرنے دے گا؟‘‘ فاروق بھائی نے سبزواری بھائی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور بولے ’’میں جانتا ہو معاملہ ایک بندے کا نہیں بلکہ دو کا ہے۔ اُن میں سے ایک دبئی…‘‘ فاروق بھائی کچھ کہتے کہتے خاموش ہوگئے۔

اگلے ہی دن فیصل بھائی، فاروق بھائی کے گلے لگ کر رونے لگے اور بولے بھائی سمجھ نہیں آرہا کہ ہمارے درمیان دوریاں کون ڈال رہا ہے؟ کل ساری رات نیند نہیں آئی مجھے!

فاروق بھائی نے فیصل بھائی کی کمر پر تھپکی دی اور اپنے رومال سے فیصل بھائی کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولے ’’ساری رات تو پریس کانفرنس کی تیاری میں گزر گئی، نیند کیسے آتی؟ اچھا اب رونا بند کرو اور سنو! کامران ٹیسوری بھائی کو ٹکٹ دینا میری مجبوری ہے۔ تمہیں تو پتا ہے جب سے لندن والوں… کی سرپرستی چھنی ہے، تب سے کارکنوں کے کھانے پینے کا بل میں اپنی جیب سے دے رہا ہوں۔ اور عامر بھائی کو سمجھائیے کہ 22 اگست کے بعد پارٹی کو کس نے سنبھالا؟‘‘

فیصل سبزواری بھائی نے کن انکھیوں سے دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی سن تو نہیں رہا اور پھر آہستہ سے بولے ’’فاروق بھائی آپ بھی ضد نہ کیجیے۔ آپ کو پتا ہے فروغ نسیم بھائی کل رات سے صرف ایم کیوایم کے آئین اور الیکش کمیشن کی دفعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے!‘‘ فاروق بھائی کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوگئیں، پھر گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے بولے ’’رات کو پی آئی بی آؤ، سب معاملات دیکھ لیتے ہیں۔‘‘

مقبول صدیقی بھائی نے فوراً عامر بھائی اور فیصل بھائی کو ایک کونے میں کھینچا اور بولے ’’فاروق بھائی اس بار قیادت چھوڑنے دھمکی کیوں نہیں دے رہے؟‘‘ عامر بھائی فوراً بولے ’’ابے عقل کے نہلے! اس مرتبہ کوئی منانے نہیں آئے گا۔ اچھا سنو، تم میں سے کسی کو کوئی خاص فون تو نہیں آیا؟‘‘

’’نہیں‘‘ مقبول بھائی کچھ زیادہ ہی تیزی میں دکھائی دے رہے تھے۔

’’اچھا شام کو بہادر آباد میں پریس کانفرنس کا کہہ دو۔‘‘

کہنا کیا ہے بھائی! صحافی تو تین دن اور چار راتوں سے وہیں پڑے پڑے روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں،‘‘ فیصل بھائی نے ہنس کر جواب دیا۔

پیچھے سے ایک کارکن کی آواز آئی ’’ماں قسم اس وقت… ’بھائی‘ بہت یاد رہے ہیں۔ اگر وہ ہوتے تو آج ایم کیوایم کو بے پیندے کا لوٹا نہ بننا پڑتا۔ بھائی کے ٹیلیفون کی ایک گھنٹی سے یہ سب ایسے دبکے ہوئے ہوتے تھے جیسے درس حدیث چل رہا ہو۔ آج دیکھو ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔‘‘

’’پہلے اس غم میں مصطفی بھائی خوب روئے، اب فیصل بھائی رو رو کر اپنا بُرا حال کر رہے ہیں؛ اور پھر عامر بھائی کے دل میں بھی جو ڈھیر سارا غم جمع ہوچکا تھا، وہ سارا آنکھوں کے راستے باہر آگیا۔ فاروق بھائی، ان کی تو شکل ہی نمکین اور غمگین ہے، انہیں رونے کی ضرورت نہیں۔ آہ! کیا زمانہ تھا۔ تیرا بھائی اس چوک میں تین تین بندے پھڑکا دیتا تھا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔‘‘

اتنے میں ایک نامعلوم آواز آئی ’’بھائی کا فون آگیا!‘‘ اتنا سننا تھا کہ چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔

بعد میں کیا ہوا؟ پتا نہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close