بلاگ

روپے کی قدر میں کمی سے متعلق حکومتی فیصلہ کتنا ٹھیک؟ کتنا غلط؟

بلاگ: راجہ کامران

موجودہ مالی سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں تیسری مرتبہ کمی کی گئی ہے۔ جولائی میں مالی سال کے پہلے کاروباری دن ایک ڈالر 104 روپے 50 پیسے کی قیمت سے تیزی سے گرتا ہوا 109 روپے کی قیمت سے تجاوز کرگیا۔ اس طرح ڈالر کی قدر میں 1.3 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

مگر روپے کی قدر میں کمی پر اسٹیٹ بینک اور اس وقت کے وزیرِ خزانہ کے مؤقف کا تضاد سامنے آیا اور اسحٰق ڈار نے بینکرز کا اجلاس طلب کرکے انٹر بینک مارکیٹ میں روپے کی قدر کو بحال کرنے کے احکامات دیے۔

مگر اس کے باوجود روپے کی قدر مکمل بحال نہ ہوئی اور طے پایا کہ ایک ڈالر 105 روپے 50 پیسے پر مستحکم رہے گا۔ اس طرح کرنسی کی قدر میں تقریباً ایک روپیہ کمی ہوئی۔ اس کے بعد دسمبر 2017ء میں ایک مرتبہ پھر اچانک کرنسی کی شرح تبادلہ کو چھیڑا گیا اور دسمبر میں روپے کی قدر اچانک 109 روپے کو پہنچ گئی۔

مگر اس مرتبہ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک میں کوئی تنازع نہ ہوا اور روپے کی قدر میں کمی کو مارکیٹ کی ایڈجسٹمنٹ قرار دیا گیا اور اب مارچ کی 19 تاریخ کو ایک مرتبہ پھر ڈالر کی قدر میں کمی کی گئی اور ایک ڈالر 115 روپے 60 پیسے کی قیمت پر پہنچ گیا۔ اس طرح موجودہ مالی سال کے دوران ایک ڈالر کی قیمت میں 11 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

اس صورتحال پر وفاقی مشیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی اعشاریوں کو دیکھتے ہوئے ایک حکمتِ عملی کے تحت روپے کی قدر میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پہلے دسمبر میں تجرباتی طور پر ڈالر کی قدر میں 5 فیصد کی کمی کی گئی اور دیکھا گیا کہ اس کے معاشی اعشاریوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس کمی سے مہنگائی میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوا اور جولائی سے فروری تک شرح افراطِ زر 3.8 فیصد رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ہے حالانکہ گزشتہ کئی مہینوں سے برآمدات مسلسل گررہی تھیں۔ فروری کے مہینے میں برآمدات میں 15 فیصد اور درآمدات میں 8 فیصد کا اضافہ ہوا۔

اس وقت پاکستانی درآمدات ملک کی مجموعی برآمدات اور سمندر پار پاکستانیوں کی بھجوائی گئی ترسیلات کے مجموعے سے زائد ہیں اور یہ کسی طور پر معیشت کے لیے اچھا نہیں ہے، اور پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اب مستقبل قریب میں پاکستانی روپے کی قدر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی کیونکہ پاکستانی رویپہ اپنی اصل شرح مبادلہ کو ڈھونڈ چکا ہے۔

مشیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے گرتے ہوئے زرِمبادلہ ذخائر کو فنڈ کرنے کے لیے بانڈز کے اجراء کے علاوہ چین کے ساتھ کرنسی سواپ بھی کررہا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ جولائی میں مالی سال کے اختتام تک زرِمبادلہ ذخائر میں 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوگا۔

دوسری طرف اگر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کو دیکھا جائے جو مارچ میں کرنسی کی قدر میں گراوٹ سے چند روز قبل جاری ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے روپے کی حقیقی شرح مبادلہ پر جانا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستانی کرنسی کی حقیقی شرح مبادلہ یعنی ریئل افیکٹیو ایکسچینج ریٹ موجودہ شرح سے تقریباً 19 فیصد زیادہ ہے جس کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سال دسمبر تک پاکستان کو جو بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں ان میں آئی ایم ایف کو 6.13 ارب ڈالر، چینی کرنسی سواپ 1.03 ارب ڈالر فارورڈ اور سواپ کے لیے 5.359 ارب ڈالر اور 70 کروڑ ڈالر دیگر مدات میں بیرونی ادایئگیاں کرنا ہیں۔

اب اگر اس تمام کو پاکستان کے اس وقت کے زرِمبادلہ ذخائر سے منہا کیا جائے تو پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر منفی 724 ملین ڈالر رہ جائیں گے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو روپے کی قدر میں مناسب کمی کرنے کے ساتھ ساتھ سخت مانیٹری پالیسی اپنانے کا بھی کہا تھا۔

مگر ایکس چینج ریٹ کتنا کم یا زیادہ ہونا چاہیے؟ اور اس کے لیے کوئی سادہ فارمولا موجود ہے جو 2 جمع 2 بتاسکے؟ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کہتے ہیں کہ ایکس چینج ریٹ کو متعین کرنے کے کئی ماڈلز ہیں جن میں اعداد و شمار کو رکھ کر دیکھا جاتا ہے اور ہر ماڈل میں ریٹ میں فرق آتا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں جہاں پاکستان تجارت کرتا ہے، وہاں کرنسی کی صورتحال کیا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان سے عالمی تجارت میں مقابلہ کرنے والے ملکوں کی کرنسی کی قدر یا شرح مبادلہ کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ کے مطابق یورو اور پاؤنڈ کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کم ہو رہی ہے۔ اس طرح اگر ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 5 فیصد سستا ہوا ہے تو یورو اور پاؤنڈ میں یہ روپے پر اثر 10 فیصد ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر چین اور بھارت کی کرنسی مضبوط ہوتی ہے تو یہ بھی روپے کی قدر میں استحکام کا سبب بنتے ہیں۔

روپے کی قدر اور مقامی صنعت

روپے کی قدر میں کمی کے معیشت پر دہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں جس کو درآمدات پر منحصر معیشت بنا دیا گیا ہے وہاں کرنسی کی قدر میں کمی سے درآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور برآمدات بڑھتی ہیں۔

وزیر اعظم کی مشاورتی کونسل کے رکن شوکت ترین کہتے ہیں کہ معیشت کے 2 بازو ہیں، ایک ہیں برآمدات اور دوسری ہے مقامی معیشت۔ اگر روپے کو اس کی حقیقی شرح تبادلہ پر نہ رکھا جائے تو نہ صرف زرِمبادلہ کے ذخائر پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ زرِمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ یعنی برآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ کرنسی مضبوط یا حقیقی قدر سے زیادہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں قیمت کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

دوسری طرف سستی درآمدات مقامی صنعت کو متاثر کرتی ہیں۔ بیرونِ ملک بڑی فیکٹریوں کی وجہ سے وہاں اکانومی آف اسکیل بہتر ہوتا ہے جو کہ پاکستانی کمپنیوں سے 10 فیصد کا مارجن لیتی ہیں۔ اسی طرح اگر کرنسی بھی 10 فیصد اوور ویلیو ہو تو مقامی صنعتوں کے لیے مقابلہ 20 فیصد مارجن کا ہوجاتا ہے۔

اس کے اثرات مقامی صنعتوں پر دیکھے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے تیزی کے ساتھ مقامی صنعتیں بند ہوئی ہیں اور یوں درآمدات پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ کرنسی کو اوور ویلیو رکھ کر ہم اپنے دونوں بازوؤں یعنی برآمدات اور مقامی صنعت کو کاٹتے ہیں۔

روپے کی قدر میں کمی کے بعد گندھارا نسان نے نسان جاپان کے ساتھ مل کر دوبارہ پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت لگانے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی 20 فیصد مقامی پارٹس کے استعمال کا بھی اعلان کیا ہے۔

جب نسان کے مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر پیمین کارگر سے روپے کی قدر میں کمی کے گاڑیوں کی قیمت پر پڑنے والے اثرات کا سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی سے کار اسمبلرز کو گاڑی کے زیادہ سے زیادہ پرزہ جات کو مقامی طور پر تیار کرنے کا موقع ملے گا، اور اس سے وینڈر انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری آئے گی۔

وزیرِ مملکت برائے ریونیو ہارون اختر خان بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک پیداواری قوم سے ایک تجارتی قوم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ پاکستان نے آزاد تجارت اس لیے اپنائی تھی کہ اس کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا اور مقامی صنعتوں کی جگہ سستی درآمدات نے لے لی۔

بیرونِ ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم

روپے کی قدر میں حالیہ کمی کو ماہرینِ معیشت ایک دوسری نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نظر میں روپے کو ڈی ویلیو کرنے سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے رکھے گئے اثاثوں کی مالیت بڑھ گئی ہے اور اگر وہ یہ اثاثے پاکستان میں ظاہر کرتے ہیں تو انہیں فائدہ ہوگا۔ یعنی روپے کی قدر میں کمی کے مقاصد میں حکومت کو زیرِ غور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو زیادہ پُرکشش اور مؤثر بنانا بھی ہے۔

معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے ذریعے حکومت نے ایک تیر سے 2 شکار کیے ہیں۔ وہ اس کمی کو بیرون ملک اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے خوش آئندہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اثاثے ظاہر کرنے والوں کو 10 فیصد ڈی ویلیو ایشن سے فائدہ ہوگا اور وہ 2 سے 3 فیصد پینلٹی کے ساتھ یہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔

حکومت اپریل کے مہینے میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروا رہی ہے۔ جس میں بیرونِ ملک رکھے گئے اثاثوں کو ظاہر کرنے پر کوئی قانونی کارروائی کرنے کے بجائے معمولی جرمانہ عائد کرکے چھوڑ دیا جائے گا۔ ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ اس اسکیم سے 150 ارب روپے کے بیرونی اثاثے ٹیکس نیٹ میں آسکیں گے۔

بیرونی قرضوں کا حجم

روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضوں کا روپے میں حجم بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ ایک روپیہ ڈی ویلیو ایشن سے غیر ملکی قرض میں 90 ارب روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم میں 594 ارب روپے کا اضافہ پاکستانی کرنسی میں ہوگیا ہے۔ ایک فیصد کمی روپے کی قدر میں انفلیشن میں اعشاریہ 3 فیصد کا اثر ڈالتی ہے۔

ڈی ویلیو ایشن کا جھٹکا

کسی بھی ملک کی کرنسی میں شرحِ مبادلہ کا تعین وہاں کی مارکیٹ کرتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت شرحِ مبادلہ طے کرنے کے لیے 2 مارکیٹس موجود ہیں، ایک انٹر بینک مارکیٹ ہے اور دوسری اوپن مارکیٹ۔ انٹر بینک مارکیٹ میں بینکس ڈالر کا آپس میں لین دین کرتے ہیں اور اس ڈالر کی طے ہونے والی قیمت پر درآمد کنندگان کو ڈالر فراہم کیا جاتا ہے۔

ویسے تو مارکیٹ کا اصول ہے کہ وہ خود کو یومیہ کی بنیادوں پر طلب و رسد اور انفلیشن کی بنیاد پر ایڈجسٹ کرتی ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے اور پاکستان میں روپے کی شرح تبادلہ کو اسٹیٹ بینک براہِ راست کنٹرول کرتا ہے اور حکومتِ وقت اس کی نگرانی کرتی ہے۔ اگر ضرورت ہوتی ہے تو اسٹیٹ بینک انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر فراہم کرکے روپے کی شرح تبادلہ کو مستحکم اور زرمبادلہ کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔

اس عمل کی وجہ سے زرِمبادلہ ذخائر پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ تجارتی ادائیگیوں پر بھی خرچ ہونے لگتے ہیں۔

معاشی ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک کا ایک دفعہ میں روپے کی قدر 5 فیصد کم کرنا درست نہیں بلکہ اس کا مقصد بعض مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے، مگر قدر میں یکدم کمی کے بارے میں موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے جو کہ میری نظر میں ایک نہایت ہی بوگس اور بے سروپا دلیل ہے۔

روپے کی قدر میں کمی سے 2 ہفتے قبل ہی اسٹاک مارکیٹ میں روپے کی قدر کے حوالے سے سرگوشیاں ہونے لگی تھیں اور لوگوں نے شیئرز بیچ کر ڈالر خرید لیے تھے۔ اسٹاک بروکریج سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ دسمبر اور پھر مارچ میں لوگوں نے ڈالر کی سرمایہ کاری سے چند دنوں میں لاکھوں روپے کمالیے ہیں۔ اسی سٹے بازی کو روکنے کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی کی قدر کو یومیہ کی بنیادوں پر بتدریج کم کیا جائے تاکہ مستقل طور پر برآمدات فائدہ مند رہیں اور درآمدات قابو میں رہیں۔

کرنسی، زرِ مبادلہ کا بحران اور انتخابی سال

پاکستان میں سن 2000ء کے بعد سے معیشت میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں اور صدر مشرف کے دور حکومت میں امریکی امداد کے بڑے پیمانے پر آمد اور اداروں کی فروخت سے زرمبادلہ ذخائر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

یہ اضافہ مارچ 2007ء تک جاری رہا مگر جیسے ہی وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا، نازک سہاروں پر کھڑی کھپت کی بنیاد پر ترقی کرتی معیشت نیچے آگری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی اور سال 2007ء کے اختتام پر ملکی زرمبادلہ ذخائر خطرناک حد تک گر گئے اور آنے والی نئی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ایک بڑا قرض لیا جس سے معیشت کو سہارا ملا۔

مگر حکومت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان پالیسی اختلافات کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام مکمل نہ ہوسکا۔ سال 2008ء سے 2015ء تک سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسی لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض کا ایک اور پروگرام شروع کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا آئی ایم ایف پروگرام تھا جو کہ مکمل کیا گیا۔

اب یہ ایسا سائیکل بن چکا ہے کہ جب پاکستان انتخابات کے قریب پہنچتا ہے تو اس کو بیرونی ادائیگیوں کے مسائل کا سامنا بھی ہوجاتا ہے اور یہ عمل بتدریج گہرا اور مشکل ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان کو میکرو اکنامک سطح پر 2 بڑے خساروں کا سامنا ہے جو کہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ایک ہے مالیاتی خسارہ اور دوسرا ہے بیرونی وسائل کا خسارہ جس کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ یا جاری کھاتوں کا خسارہ بھی کہا جاتا ہے۔ مالیاتی خسارہ کم ہوگا تو جاری کھاتوں کا خسارہ بھی مثبت سمت میں متحرک ہوگا۔

اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ہر 5 سال کے بعد بیرونی ادائیگیوں کے خسارے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

ضروری ہے کہ پاکستان اپنی کرنسی کی شرح تبادلہ بتدریج ایڈجسٹ کرتا رہے تاکہ پاکستان میں برآمدات بڑھیں اور درآمدات کے بجائے مقامی طور پر تیار اشیاء کی کھپت میں اضافہ ہو جس سے مقامی صنعتوں کو فائدہ ہو۔

یوں عوام کے لیے حقیقی روزگار پیدا ہوگا اور مستحکم معاشی ترقی حاصل ہوگی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close