بلاگ

عہد یوسفی ختم ہوا

عہدِ یوسفی ختم ہو گیا

بیسویں صدی کے اولین عشروں کی بات ہے کہ انڈین شہر جےپور سے عبدالکریم یوسف زئی نامی ایک شخص کسی کام کے سلسلے میں پشاور گیا۔ لیکن جب انھوں نے وہاں اپنا تعارف یوسف زئی پٹھان کے طور پر کروایا تو مقامی لوگ ہنس دیے۔

وجہ یہ تھی کہ عبدالکریم کا خاندان قبائلی علاقہ چھوڑ کر کئی صدیاں قبل ریاست راجستھان میں جا آباد ہوا تھا اور وہ شکل و صورت، زبان، لہجے اور چال ڈھال سے مکمل طور پر مارواڑی روپ میں ڈھل چکے تھے۔

عبدالکریم، جو جےپور کے پہلے گریجویٹ مسلمان تھے، اس واقعے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے اپنا نام ہی یوسف زئی سے بدل کر یوسفی کر ڈالا۔ عبدالکریم کے ہاں چار اگست 1923 کو ایک بچے کی ولادت ہوئی جس کا نام مشتاق احمد خان رکھا گیا۔

یہی بچہ آگے چل کر اردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار اور تخلیقی نثرنگار مشتاق احمد یوسفی کہلایا۔

مشتاق احمد نے ابتدائی تعلیم جےپور ہی میں حاصل کی۔ 1945 انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے ایک اور بے بدل، صاحبِ اسلوب نثرنگار مختار مسعود اسی زمانے میں علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے۔

1946 میں پی سی ایس کر کے مشتاق احمد یوسفی ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہو گئے۔ اسی سال ان کی شادی ادریس فاطمہ سے ہوئی جو خود بھی ایم اے فلسفہ کی طالبہ تھیں۔

اگلے ہی برس ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس کے بعد ان کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے۔ یکم جنوری 1950 کو مشتاق احمد نے بوریا بستر باندھا اور کھوکھرا پار عبور کر کے کراچی آ بسے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘جون 1949 میں انھوں نے (حکام نے) طے کیا کہ اردو سرکاری زبان نہیں رہے گی، اس کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا کہ ہم کام نہیں کریں گے۔’

کراچی آ کر انھوں نے شعبہ بدل لیا اور سول سروس کی بجائے مسلم کمرشل بینک سے منسلک ہو گئے۔ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 1974 میں وہ یونائٹیڈ بینک کے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ 1979 میں انھوں نے لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اور بالآخر 1990 میں ریٹائر ہو کر مستقل کراچی آ بسے اور تادمِ مرگ وہیں مقیم رہے۔

2007 میں 60 برس سے زیادہ کی رفاقت کے بعد ان کی اہلیہ ادریس فاطمہ کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد مشتاق یوسفی ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ ان کی تمام تحریروں میں ان کا ذکر جہاں بھی آیا ہے وہاں یوسفی کے قلم سے محبت اور خلوص ٹپکتا محسوس ہوتا ہے۔

اپنے ادبی کریئر کے آغاز کے بارے میں یوسفی کہتے ہیں کہ ‘والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ڈاکٹر بنوں اور عرب جا کر بدوؤں کا مفت علاج کروں۔’

لیکن اسے اردو والوں کی خوش نصیبی کہیے کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر نہیں بن سکے البتہ طنز و مزاح کے نشتر سے دیسی معاشرے کے دکھوں کا علاج کرنے لگے۔

یوسفی نے پہلا باقاعدہ مضمون 1955 میں ‘صنفِ لاغر’ کے نام سے لکھا تھا۔ تاہم انھوں نے جب اسے اپنے زمانے کے مشہور رسالے ادبِ لطیف کو اشاعت کے لیے بھیجا تو اس کے مدیر مرزا ادیب نے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ وہ اس کے مرکزی خیال سے متفق نہیں ہیں۔

صد شکر کہ یوسفی اس سے بدمزہ نہ ہوئے اور انھوں نے یہی مضمون ترقی پسند رسالے سویرا کو بھیج دیا، جس کے مدیر حنیف رامے نے نہ صرف اسے شائع کیا بلکہ یوسفی کو مزید لکھنے کی ترغیب بھی دی۔ ویسے تو حنیف رامے نے سیاسی میدان میں خاصی شہرت کمائی لیکن ادبی میدان میں شاید ان کا نام اردو ادب کو یوسفی سا تحفہ عطا کرنے کے حوالے ہی سے زندہ رہے۔

حنیف رامے کی شہ پا کر یوسفی نے مختلف رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کیے جو ‘صنفِ لاغر’ کے ہمراہ 1961 میں یوسفی کی پہلی کتاب ‘چراغ تلے’ کا حصہ بنے۔ اس سے قبل اردو والوں نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں پڑھی تھی اس لیے بحث چل نکلی کہ اس میں شائع ہونے والے ادبی پاروں کو مضمون کا نام دیا جائے، انشائیہ کہا جائے یا پھر افسانے سمجھا جائے۔ اس بحث کا تو آج تک حل نہیں نکل سکا، البتہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اب تک اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

لیکن یوسفی کی آنکھیں شہرت سے چکاچوند نہیں ہوئیں، اور اب انھوں نے رسالوں میں مضامین لکھنا بھی بند کر دیے، جب کہ ان کی اگلی کتاب کے لیے بھی ان کے مداحوں کی روزفزوں تعداد کو نو سال کا انتظار کرنا پڑا۔ جب ‘خاکم بدہن’ 1970 میں شائع ہوئی تو محسوس ہوا کہ ادیب نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ اگلے برس اس کتاب کو اس دور کے سرکردہ ادبی اعزاز آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

یہی ایوارڈ 1976 میں یوسفی کی تیسری کتاب ‘زرگزشت’ کو بھی دیا گیا۔ حسبِ روایت یہ کتاب بھی پچھلی دونوں کتابوں سے مختلف تھی جسے ان کی ڈھیلی ڈھالی خودنوشت سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود یوسفی نے اسے اپنی ‘سوانحِ نوعمری’ قرار دیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں نوعمری کا نام و نشان نہیں کیوں کہ اس کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب یوسفی نے پاکستان آ کر بینکنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تھا۔

یوسفی کی چوتھی کتاب ‘آبِ گم’ ہے جو 1989 میں شائع ہوئی۔ ایک بار پھر اس کی ہیئت پچھلی تینوں کتابوں سے مختلف تھی۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسے ناول بھی قرار دیا۔ ہمارے خیال سے یہ یوسفی کی اہم ترین کتاب ہے۔

البتہ اس کے بعد یوسفی نے ایک لمبے عرصے تک چپ سادھ لی۔ جب 2014 میں خبر ملی کہ چوتھائی صدی کے مراقبے کے بعد یوسفی کی پانچویں کتاب شائع ہو رہی ہے تو اس سے ادبی دنیا میں لہر دوڑ گئی۔ تاہم یہ کتاب پڑھ کر خاصی مایوسی ہوئی، کیوں کہ یہ کوئی باقاعدہ کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف ادوار میں لکھے گئے مضامین، خطبات اور تقاریر اکٹھی کر دی گئی ہیں۔

یوسفی کے بنیادی موضوع بدلتی ہوئی معاشرتی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کرنا ہے، گزرتے وقت کا ناسٹیلجیا (جسے انھوں نے ‘یادش بخیریا’ کا نام دیا ہے) ان کی تحریروں کا اہم جزو ہے۔

اردو مزاح نگاروں کی اکثریت قہقہہ آور صورتِ حال اور مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے مزاح پیدا کرتی ہے۔ اس سلسلے میں رتن ناتھ سرشار (خوجی)، امتیاز علی تاج (چچا چھکن)، پطرس بخاری کے مضامین، کرنل محمد خان کی بجنگ آمد، شفیق الرحمٰن اور ابنِ انشا کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ انگریزی اصطلاح میں اسے ‘سلیپ سٹِک کامیڈی’ کہا جاتا ہے۔

مشتاق احمد یوسفی نے اپنی راہ ان سب سے الگ نکالی۔ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ان کے ہاں مزاح صورتِ حال کی منظرکشی سے نہیں، بلکہ صورتِ حال پر فلسفیانہ غور و فکر اور گہرا اور چبھتا ہوا تبصرہ کر کے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی فلسفے کی تعلیم ضرور کام آئی ہو گی۔

وہ کرداروں کی اچھل پھاند سے نہیں، بلکہ لفظوں کے ہیرپھیر، تحریف، لسانی بازی گری اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا وسیع ذخیرۂ الفاظ اور اس سے بھی وسیع تر مطالعہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریر سے سرسری نہیں گزار جا سکتا، بلکہ ہر ہر فقرے کو بڑی توجہ اور احتیاط سے پڑھنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات دوبارہ یا سہ بارہ پڑھ کر ہی اس سے بھرپور حظ کشید کیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں جن سے ان کے طرزِ تحریر پر روشنی پڑتی ہے:

•چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ ‘کافی’ لگی ہوئی۔

•بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی ہے۔

•آپ نے بعض میاں بیوی کو۔۔۔ ہواخوری کرتے دیکھا ہو گا۔ عورتوں کا انجام ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے ‘ہواخور’ رفتہ رفتہ ‘حواخور’ ہو جاتے ہیں۔

•مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

•معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔

•اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔

•مزاح، مذہب اور الکحل میں ہر چیز میں باآسانی حل ہو جاتے ہیں۔

•ان کی بعض غلطیاں فاش اور فاحش ہی نہیں، فحش بھی تھیں۔

•جب نورجہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گیا تو جہانگیر نے اسے پہلی بار خصم گیں نگاہوں سے دیکھا۔

•صاحب، میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا۔

•مرحوم جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہو گئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تونس میں مبتلا رہے، لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہو گیا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close