بلاگ

وہ ایدھی جسے آپ نہیں جانتے تھے

ایک بار ایدھی صاحب شاہانہ کپڑوں کے بجائے سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر کسی عام آدمی کی طرح عشائیے کی دعوت پر تشریف لائے تھے، وہ عیشائیہ میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہے۔ وہ پھولے ہوئے صوفے پر سرمئی، ٹوپی اور چپل پہنے انتہائی سادہ انداز میں تشریف فرما تھے۔

میں نے جیسے ہی انہیں ’مولانا ایدھی‘ کہہ کر مخاطب کیا تو سخت لہجے میں جواب دیا کہ،

’مجھے مولانا کہہ کر مخاطب نہ کریں!‘

’مگر ایدھی صاحب آپ کو تو سب اسی نام سے پکارتے ہیں۔‘

انہوں نے میری طرف انگلی اونچی کرتے ہوئے کہا کہ،’میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، صرف اس وجہ سے وہ مجھے مولوی پکارتے ہیں۔ میں مولانا نہیں ہوں۔‘

یہ سن کر مجھے وہ بات یاد آئی جب لوگوں نے ایدھی صاحب سے پوچھا کہ وہ اپنی ایمبولینسز میں غیر مسلموں کو لے جانے کی اجازت کیوں دیتے ہیں اور انہوں نے اس پر سخت لہجے میں جواب دیا تھا کہ:

’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے۔‘

ایدھی صاحب کسی بھی شے یا شخص کے بارے میں غلط محسوس کرتے تو اس کے خلاف بولنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان سے گفتگو کے دوران جب میں نے ان کے سامنے شہر کے بنیادی ڈھانچوں کو بہتر کرنے پر کراچی کے ایک سابق میئر کی تعریف کی تو وہ آگ ببولا ہوکر کہنے لگے:

’وہ سرگرم تو نہیں! آپ کو پتہ ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقعے پر ہم ہی وہ سب سے پہلے لوگ تھے جو کھالیں اکٹھا کیا کرتے تھے، اور پھر انہیں بیچ کر جو بھی پیسے ملتے انہیں خیراتی کاموں میں لگا دیتے تھے۔ مگر جیسے دوسروں کو احساس ہوا کہ کھالوں سے پیسہ بنایا جاسکتا ہے، تو انہوں نے بھی فلاحی کاموں کی آڑ میں خود جا جا کر جبراً کھالیں اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ جھوٹے اور چور ہیں وہ لوگ۔‘

اور پھر پرسکون ہو کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔

ایک عاجز عظیم انسان

انہوں نے 1957ء میں تن تنہا ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی اور آگے چل کر اس ادارے نے پاکستان کے کونے کونے میں پھیل کر ایک غیر منافع بخش فلاحی تنظیم کے طور پر اپنا کام شروع کیا، ان کاموں میں غریبوں اور ضرورتمندوں کو طبی امداد، خاندانی منصوبہ بندی اور ایمرجنسی مدد اور تعلیم فراہم کرنا شامل ہیں۔ اس ادارے کے تحت زچگی خانے، ذہنی مریضوں کی پناہ گاہیں، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بینک اور یتیم خانے بھی چلائے جاتے ہیں۔

16 نومبر 2009ء کو عالمی یومِ برداشت کے موقعے پر ایدھی صاحب ‘یونسکو مدنجیت سنگھ ایوارڈ’ برائے ‘فروغ رواداری’ و ‘عد م تشدد وصول کرنے پیرس گئے تھے۔ یہ ایوارڈ انہیں ’پاکستان میں پسماندہ طبقات کی خدمات کے لیے تاحیات جدوجہد اور انسانی وقار، انسانی حقوق، باہمی احترام و برداشت کے نظریات کو فروغ دینے کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔‘

ایوارڈ وصولی کی تقریب کا انعقاد اقوام متحدہ کی وسیع و عریض عمارت میں ہوا تھا؛ اس موقعے پر میں بھی وہاں موجود تھی۔ ڈزائینر سوٹس، چم چماتے کوٹس اور فینسی جوتوں کے درمیان ایدھی صاحب سب سے منفرد انداز میں سرمئی شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے اور سادہ چپل پہنے کھڑے تھے۔

لکھاری پیرس میں ایدھی صاحب کے ہمراہ۔

ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی جس میں ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی معاشرے کے نادار لوگوں کے درمیان فلاحی کاموں میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔

جب ایدھی صاحب یونیسکو کا ایوارڈ وصول کرنے اٹھے تو تالیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی یورپی لوگوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ وہ ایسے عظیم انسان سے ملاقات نصیب ہونے پر خود کو کافی خوشقسمت محسوس کر رہے تھے۔

ایدھی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر ایک ہندوستانی جوڑے نے اپنی وطن واپسی کی فلائٹ تک منسوخ کردی تھی، ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف ایدھی صاحب کی دعائیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔

جیسے ہی یہ غیر معمولی تقریب اپنے اختتمام کو پہنچی تو ایدھی صاحب جلد ہی خوش و خرم پاکستانیوں میں گھل مل گئے۔ ایدھی صاحب کے ساتھ گفتگو اور لاتعداد تصاویر کھنچوانے کا سلسلہ شروع ہوگیا، جب اقوام متحدہ کے افسران نے اپنی نگاہیں گھڑیوں کی طرف دوڑانا شروع کیں تب جا کر تصاویر کھنچوانے کا سلسلہ ختم ہوا، مگر پھر ڈنر کی دعوتوں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔

اس وقت ایدھی نہایت تھکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے مگر انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی شخصیت کا توازن نہیں کھویا۔ شام 7 بجے سونے اور صبح 4 بچے جاگنے کے عادی، شدید تھکان اور لگاتار سماجی ملاقاتوں کی وجہ سے تھکن سے چُور تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں کے پاکستانیوں سے ملنے کا موقعہ کھونا نہیں چاہتے۔

کئی پاکستانی ایدھی صاحب کا ہاتھ تھام کر دعائیں مانگنے لگے اور ان کے فلاحی ادارے کو امداد دینے کا اظہار بھی کیا۔

وہ ایدھی جسے کم لوگ جانتے تھے

ان کے ساتھ کسی ہیرو جیسا رویہ روا رکھے جانے کے باوجود بھی ایدھی پرسکون رہے اور کبھی کبھی تو تند و تیز مزاحیہ جملے بھی کہہ رہے تھے، ایسے ہی ایک فقرے سے انہوں نے ایک معمر خاتون کو چپ کروا دیا تھا۔

وہ خاتون ان کے پاس آئیں اور شاہانہ انداز میں یہ اعلان کیا کہ وہ رٹائرمنٹ کے بعد ایدھی سینٹر میں رضاکارانہ کام کریں گی۔

’اس طرح کے کام کرنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ لہٰذا زیادہ دیر نہ کریں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔‘

جب وہ مجھے تہمینہ درانی کے ساتھ مل کر لکھی گئی اپنی آپ سوانح حیات دینے لگے تب بھی انہوں ایک ایسا ہی مزاحیہ بات کہی تھی۔ دراصل جب باتوں کا رخ جب تہمینہ کی دوسری شادی کی طرف گیا تو معصومانہ انداز میں کہنے لگے کہ،

’انہوں نے شہباز سے ہی شادی کیوں کی؟‘

اس پر میں نے کہا کہ، ’کیوں نہ کرتیں؟ اور کس کے ساتھ کرتیں؟‘

’میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نہیں تھا کیا، میں بھی تھا‘۔

ان کی یہ بات سن کر ان کی بیٹیاں اور نواسا ہنس پڑے۔

’خیراتی کام اپنے اصل تصور سے مختلف تھا۔ فلاحی کاموں کے فروغ میں جو ایک دوسری بڑی رکاوٹ پیش آئی وہ تھی انسان کی انسانیت کے لیے نفرت۔ ہر کسی کا ردعمل حقارت بھرا ہوتا تھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے بگڑے ہوئے چہرے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ فقط میں وہ اکیلا شخص ہوں جسے ان کاموں میں حقارت محسوس نہیں ہوتی۔ میرے ساتھی بار بار اچھی طرح اپنے ہاتھ صاف کرتے اور اپنے کپڑوں کو سونگھتے اور مسلسل شکایت کرتے رہتے کہ بدبو ان کے جسم میں سما چکی ہے۔ پھر وہ اپنے گھر جاتے، نہاتے، کپڑوں کو رگڑ کر صاف کرتے اور جراثیم سے پاک بناتے تھے، کبھی کبھار تو وہ اپنے کپڑے کسی دوسرے کو دے دیتے اور کہتے کہ ’ لباس خراب ہوگیا ہے‘۔ ہم اس وقت تک دکھ اور تکلیفوں کو کم نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنے حواسوں پر غالب نہیں آجاتے۔‘

—عبدالستار ایدھی (اے مرر ٹو دی بلائنڈ سے اقتباس)

وہ نڈر تھے

ایدھی صاحب ان مقامات پر بھی جانے سے نہیں ہچکچاتے جہاں دیگر جانے سے خائف رہتے۔ وہ قبائلی علاقوں کی راہ گزر ٹنک بھی گئے جہاں طالبان انہیں قتل بھی کرسکتے تھے مگر بجائے ایسی کسی بات کے طالبان نے کھلی باہوں کے ساتھ ایدھی صاحب کا استقبال کیا۔

ایدھی صاحب نے انہیں اسلامی تعلیمات کے منافی پرتشدد طرز زندگی کو ترک کرنے کا کہا۔ طالبان نے انہیں خدائی فقیر پکارا، انہوں نے ایدھی صاحب کو انتہائی احترام سے سنا اور پھر انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا۔

ایدھی صاحب کی زندگی کے ذاتی سانحات

ایدھی صاحب کی آپ بیتی میں تحریر ہے کہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ان کے محبوب نواسے بلال کی وفات تھی۔ جب سینٹر کی ایک رضاکار نے نہلاتے وقت ان پر کھولتا پانی ڈال دیا جس سے جل کر وہ انتقال کرگئے۔ اس حادثے سے پہنچنے والے شدید صدمے کے باوجود انہوں نے اپنا دل مضبوط کیے رکھا اور جس عورت نے ان کے نواسے کو مارا تھا اسے اپنی پناہ گاہ سے نکالنا گوارا نہ کیا۔

لیکن جس واقعے نے انہیں بکھیر دیا وہ تھا اکتوبر 2014ء میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے سینٹر میں ہونے والی ڈکیتی۔

عبدالستار ایدھی کی موجودگی آپ کو مستقبل کے لیے ایک امید بندھا دیتی تھی کیونکہ ان کا پختہ یقین تھا کہ امداد دینے کے حوالے سے پاکستانیوں سے زیادہ سخی اور کوئی نہیں اور پاکستان جیسی عظیم جگہ پوری دنیا میں نہیں ہے۔

اب جبکہ وہ وفات پاچکے ہیں تو اب یہ ہر ایک پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عظیم انسان دوست کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھیں۔

ایدھی کو بھی پاکستان کے لوگوں سے صرف یہی توقع وابستہ ہوگی۔

 

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close