بلاگ

وزیرِاعظم صاحب، موجودہ جامعات پر پہلے توجہ دیجیے!

بلاگ: علیم احمد

وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جناب عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جن چیدہ چیدہ نکات پر بات کی، ان میں سے ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کو ایک جدید ’’ریسرچ یونیورسٹی‘‘ میں تبدیل کردیا جائے گا۔ بصد احترام، آپ کی اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہوں گا کہ وزیرِاعظم کی شاندار رہائش گاہ کو یونیورسٹی میں بدلنا ایک صائب قدم ضرور ہے لیکن اسے نئی حکومت کی ترجیح ہر گز نہیں بننا چاہیے۔ اس کے بجائے پاکستانی جامعات (بالخصوص سرکاری جامعات) کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے تو خاصے کم وقت میں اس سے کہیں بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک ’’ریسرچ یونیورسٹی‘‘ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ ’’تحقیق‘‘ (ریسرچ) ہی وہ طرہٴ امتیاز ہے جو ایک جامعہ کو کسی بھی دوسرے، ڈگریاں دینے والے اعلیٰ تعلیمی ادارے (ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوشن) سے مختلف بناتی ہے۔ کسی بھی جامعہ میں ایک جانب مختلف شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے تو دوسری طرف وہاں انواع و اقسام کی تحقیق بھی ہمہ وقت جاری رہتی ہے… جس کا تعلق مسائل کی نشاندہی سے لے کر انہیں حل کرنے تک سے ہوتا ہے؛ جبکہ نت نئی دریافتیں، ایجادات و اختراعات بھی جامعات میں ہونے والی تحقیق ہی کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔

اسی تسلسل میں یہ بات بھی یقیناً برمحل رہے گی کہ جدید مغربی ترقی میں جہاں دیگر عوامل کارفرما رہے ہیں، وہیں جامعات میں ہونے والی تحقیق نے بھی دریافتوں، ایجادات اور اختراعات کو جنم دے کر ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحقیق کی بدولت معاشی و معاشرتی ترقی (socioeconomic development) کا یہ سفر قدرے طویل اور صبر آزما ضرور ہوتا ہے لیکن اگر صحیح ترجیحات کے ساتھ درست سمت میں پیش رفت جاری رکھی جائے تو کامیابی یقینی ہے… آخر ایک پودا بھی سایہ دار اور پھل دار درخت بننے میں کئی سال لگا دیتا ہے۔

جامعات (یا تحقیقی اداروں) میں ہونے والی تحقیق ایک طرف ’’تحقیقی مقالہ جات‘‘ (ریسرچ پیپرز) کی بنیاد بنتی ہے تو دوسری جانب اطلاقی تحقیق (اپلائیڈ ریسرچ) سے ایسی نت نئی ایجادات و اختراعات کا ظہور بھی ہوتا ہے جو مزید کام کے بعد پختگی کی منزل پر پہنچ کر ایک نئی ٹیکنالوجی کو جنم دیتی ہیں (جن کے حقوق ’’پیٹنٹس‘‘ کی شکل میں حاصل کرلیے جائیں تو اضافی آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں)۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ مقصد حاصل کرنے کےلیے اسٹارٹ اپس (startups)، اسپن آف (spin-off) اور ٹیکنالوجی انکیوبیٹر (incubator) وغیرہ جیسے تصورات کئی عشروں سے رائج ہیں۔ اس ضمن میں ریاست بھی ’’وینچر کیپٹل‘‘ (venture capital) یا اسی قسم کے دوسرے پروگراموں کے ذریعے مالی تعاون کرتی ہے تاکہ ابتدائی تحقیقی نتائج کو معاشی و معاشرتی طور پر ’’سود مند‘‘ بنایا جاسکے۔ حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ کی بدولت اس ذیل میں ’’کراؤڈ فنڈنگ‘‘ (crowd funding) کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔

یہاں ’’سود مند‘‘ کا مفہوم خاصا وسیع ہے جس میں وہ ایجادات و اختراعات بھی شامل ہیں جو کسی نئی صنعت (یا نئے کاروبار) کی وجہ بن کر ملکی صنعت کی نمو پذیری میں مدد دیں؛ وہ مشینیں اور آلات بھی ہیں جنہیں مقامی طور پر تیار کرکے درآمدات پر انحصار کم کیا جاسکے اور خطیر زرِ مبادلہ کی بچت کی جاسکے؛ اور ایسے طریقہ ہائے کار (processes) بھی ہیں جو مروجہ مصنوعات کے معیار اور قدر میں اضافہ (value addition) کرکے برآمدات میں فروغ کا سبب بنیں۔

افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی جامعات اور تحقیقی ادارے، اپنی مجموعی حیثیت میں، اس منزل سے کوسوں دور ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہمت ہار دی جائے اور ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔

یہاں کسی آمر کی تعریف کرنا ہر گز مقصود نہیں لیکن یہ امر بہرحال حقیقت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کا سہرا جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے سر جاتا ہے۔ جنرل صاحب نے پہلے تو پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان (ایف آر ایس) کو وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بنایا؛ اور بعد ازاں جب ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ (ایچ ای سی) کے قیام کا مرحلہ آیا تو ڈاکٹر صاحب کو اس کا بانی چیئرمین مقرر کردیا گیا۔ مشرف دورِ حکومت میں اعلیٰ تعلیم اور سائنسی تحقیق کے حوالے سے پاکستان میں ایک قابلِ تعریف منظر نامہ تشکیل پایا جسے وطن دوستوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا جبکہ پاکستان سے نفرت کرنے والوں میں یہ دیکھ کر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

یادش بخیر، جب فروری 2008 میں عام انتخابات کا موقع آیا تو اُس وقت کم از کم 2000 پاکستانی طالب علم (میرٹ پر منتخب ہونے کے بعد) سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک پی ایچ ڈی کرنے میں مصروف تھے۔ ان تمام طالب علموں کو اس شرط کے ساتھ بیرونِ ملک بھیجا گیا تھا کہ وہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آئیں گے اور جامعات یا دوسرے تحقیقی اداروں میں ’’ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ‘‘ (R&D) یعنی تحقیق و ترقی سے متعلق فرائض انجام دیں گے۔

چیئرمین ایچ ای سی کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ڈاکٹر عطاء الرحمان اکثر، اور برملا، یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی جامعات ’’ڈگری دینے والے کالجوں‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ بیشتر پاکستانی جامعات میں تحقیق (ریسرچ) کا عنصر کم و بیش غیر موجود ہے۔ البتہ، یہ جنرل مشرف ہی کا دورِ حکومت تھا کہ جب نجی شعبے میں درجنوں نئی جامعات قائم ہوئیں جو عملاً ’’ڈگری دینے والے کالج‘‘ ثابت ہوئیں… اعلیٰ تعلیم کے نام پر مال بنانے والی ’’ہائر ایجوکیشن مافیا‘‘ بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مشرف دورِ حکومت میں اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ’’معیاری‘‘ (qualitative) سے زیادہ ’’مقداری‘‘ (quantitative) رہا؛ تاہم اس ضمن میں حکومتی فراخدلی کے باعث تحقیق کے مواقع بھی کہیں زیادہ رہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 2008 سے وجود میں آنے والی ’’جمہوری حکومتیں‘‘ مشرف دور کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خامیاں دور کرکے جامعات کا معیار بہتر بناتیں اور جامعات میں تحقیق کو فروغ دیتے ہوئے اُن مقاصد کا حصول یقینی بناتیں جو مشرف دورِ حکومت میں حاصل نہیں کیے جاسکے تھے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کو ’’صوبوں کی ذمہ داری‘‘ قرار دے کر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پرخچے اُڑا دیئے گئے؛ اور اسے ماضی کے ’’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘‘ سے بھی زیادہ کمزور اور بے اختیار ادارے میں بدل دیا گیا۔ جامعات میں جو تھوڑی بہت تحقیق شروع ہوئی تھی، وہ آہستہ ہوتے ہوتے تقریباً رُک گئی۔ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر من پسند عہدیداران کی ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تقرری نے اس ادارے کو بھی (جو اب وفاقی اور صوبائی سطح کے اداروں میں بٹ چکا ہے) تنزلی کی راہ پر گامزن کردیا، جس کے نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں۔

اگر حکومتِ سندھ نے نئی جامعات بنانے پر توجہ دینے کے بجائے اسی پرانے ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کا اطلاق ایک بار پھر سندھ کی سرکاری جامعات پر کرنا شروع کردیا تو وفاقی حکومت نے بھی تعصب برتنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں پنجاب کی صوبائی جامعات اور تحقیقی اداروں کو (وفاقی حکومت کی جانب سے) خوب نوازا گیا لیکن دیگر صوبوں کی جامعات یا تحقیقی اداروں سے ریسرچ گرانٹس کےلیے آنے والی درخواستوں کو یا تو ’’یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے‘‘ کہہ کر ردّ کردیا جاتا، یا پھر ان درخواستوں کو شرفِ قبولیت بخشنے میں اس قدر تاخیر کردی جاتی کہ درخواست لانے والا (فرد یا ادارہ) مایوس ہوکر، صبر شکر کرکے بیٹھ جاتا۔ ایک صوبے پر چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ’’ریسرچ گرانٹس‘‘ کی برسات اور دوسرے صوبوں کےلیے ریسرچ گرانٹس کی قلت نے دو دھاری تلوار کا کام کیا: ایک جانب ضرورت سے زیادہ سہولیات نے آرام پسندی کو جنم دیا تو دوسری جانب ضروری وسائل کی عدم فراہمی نے پاکستان میں جامعات کی (اور ادارہ جاتی) سطح پر ہونے والی تحقیق کو شدید نقصان پہنچایا۔

تاہم، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ماضی میں ہونے والی علمی تباہی و بربادی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ ازالہ بالکل ممکن ہے، جس کا آغاز موجودہ جامعات میں تدریسی اصلاحات سے کیا جاسکتا ہے جس میں نصاب اور تدریسی طریقوں کی بہتری سے لے کر جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ و غیر تدریسی عملے کےلیے بہتر تنخواہیں/ مراعات وغیرہ شامل ہوں۔ اسی کے ساتھ ریسرچ گرانٹس کے ضمن میں میرٹ کو بطورِ خاص مدنظر رکھتے ہوئے، شفاف طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے یہ گرانٹس جاری کی جائیں؛ جبکہ اس معاملے میں صوبائی یا علاقائی تعصب ہر گز نہ برتا جائے۔

بس صرف اس جانب سے خبردار رہیے گا کہ اقتدار میں آتے ہی بہت سے مفاد پرست آپ کے گرد حصار بناکر آپ کے سامنے ایک نہایت پُرفریب منظر پیش کرنے کی پوری کوشش کریں گے؛ مگر ان کا مقصد آپ کو دھوکے میں رکھ کر اپنا مقصد حاصل کرنا، اپنا اُلو سیدھا کرنا ہوگا۔ ان سے ہوشیار رہ کر آپ خود پر اور اس ملک پر بہت بڑا احسان کریں گے۔

یقین کیجیے کہ اگر آپ نے جامعات میں علمی و تحقیقی اصلاحات کو بھی اپنے ایجنڈے کا حصہ بنالیا اور اس پر واقعتاً اسی طرح عمل کیا کہ جس طرح عمل کرنے کا تقاضا ہے، تو مستقبل کا مؤرخ یقیناً آپ کو ’’نسلوں کا معمار‘‘ کہہ کر یاد کرے گا۔ اور اگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا تو… آپ بہتر جانتے ہیں کہ یہی پہلا موقع، آپ کےلیے آخری موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close