بلاگ

کرتارپور دربار صاحب گوردوارہ ۔۔ دوریاں مٹنے لگیں

وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی مہمان نوجوت سنگھ سدھو نے شرکت کی جنھیں آرمی چیف بڑی گرمجوشی سے ملے ۔ سدھو جی نے کہا کہ آرمی چیف نے بات چیت کے دوران کرتار پور میں واقع دربار صاحب گوردوارہ کھولنے کا بھی عندیہ دیا۔ اس کے بعد وزیر اطلاعات نے بھی بیان دے ڈالا کہ ہم کرتار پور میں دربارصاحب گوردوارہ کھولنے کی تیاری کررہے ہیں اب صرف بھارت کی طرف سے اقدامات اٹھانے کا انتظار ہے۔ اس بیان سے جہاں فوادچودھری نے بال بھارت کے کورٹ میں پھینکی وہیں بھارت میں مقیم سکھ برادری کے 71 برس سے زائد عرصے سے سوئے ارمان جگا دئیے۔

جوں ہی خبر چلی ہمارے بھی ذہن میں خیال گردش کرنے لگے کے آج تک اس گوردوارے سے متعلق سن اور پڑھ تو بہت رکھا ہے مگر کبھی دیکھا نہیں لہذا زیارت کرنے کیلئے منصوبہ بندی مکمل کی اور اگلے ہی دن رخت سفر باندھ لیا۔

دربارصاحب گوردوارہ لاہور سے تقریبا 120 کلومیٹر دور ضلع نارروال میں شکر گڑھ روڈ پر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ کرتارپور گاوں بھارت کی سرحد کے ساتھ ہے اور گوردوارہ بھارتی سرحد سے تین سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس گورودوارے کی تعمیر پٹیالہ مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 تا 1929کے درمیان کروائی تھی۔

address

شکرگڑھ روڈ سے جونہی نیچے کچی سڑک پر اترتے ہیں تو تھوڑی ہی دور آگے جانے کے بعد گورودوارے کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے۔ کرتارپور وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیوجی مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے اور ان کی سمادھی اور قبر بھی یہیں موجود ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کیلئےایک مقدس مقام ہے۔ گورونانک دیوجی مہاراج 1521 کو یہاں آئے اور کرتار پور کے نام سے ایک نگر بسایا۔1539 تک آپ نے اسی استھان پر قیام کیا۔ یہاں رہ کر آپ نے کھیتی باڑی کی اور 3 درس دئیے۔

نام جپو: جس پروردگار نے پیدا کیا اس کی بندگی کرو۔

کرت کرو: اپنے ہاتھوں سے حلال روزی کماو۔

ونڈ چھکو: تمام تفرقات کو مٹا کر سب مل جل کر رہو۔

بابا جی کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گُرو اور مسلمان اپنا بزرگ مانتے تھے۔ روایت ہے کہ جب 1539 میں بابا جی کا انتقال ہوا تو مسلمانوں اور سکھوں میں ان کی آخری رسومات کو لے کر تفرقہ پڑ گیا۔ مسلمان ان کی میت کو دفنانا اور سکھ جلانا چاہتے تھے۔ آگے کیا ہوا اس پر مختلف آراء ہیں لیکن گوردوارے پر لکھے نوٹ کےمطابق ایک درویش نے کہا کہ میت پر چادر رکھو جب چادر اٹھائی گئی تو بابا جی کی میت چادر کے نیچے سے غائب ہوگئی اور پھول رہ گئے۔ پھر مسلمانوں نے آدھے پھولوں اورچادرکو دفنا دیا جبکہ سکھوں نے باقی آدھے پھولوں اور چادر کو سسکار کرکے سمادھ استھان بنادی۔ آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں اور دونوں مذاہب کے لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتےہیں۔

گوردوارے کی عمارت دو منزلہ اور بہت ہی خوبصورتی سے بنائی گئی ہے۔ پہلے گوردوارے پر سفید اور گولڈن رنگ ہوا تھا لیکن آج کل پوری عمارت کو سفید رنگ میں رنگ دیا گیا ہے جس کے باعث دور سے ہی پوری دودھیا عمارت واضح نظر آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ بھارت میں موجود سکھ برادری بارڈر پار سے دوربینوں کے ذریعے گوردوارے کی زیارت کرتے ہیں۔ بھارتی بارڈر فورس نے سرحد پر ایک “درشن استھل” بھی قائم کیا ہوا ہے۔ باڈر کے اس پار سے یہ دودھیا عمارت کیسی نظر آتی ہوگی نہیں معلوم لیکن یہاں سے بھارتی سرحد پر لگے درخت واضح نظر آتے ہیں۔

گودوارے میں ایک بڑا لنگر خانہ ہے اور زائرین کے رہنے کیلئے کچھ شیڈ نما کمرے بھی بنائےگئےہیں۔ اس کےعلاوہ گوردوارے کے اردگرد چھوٹے سے باغ ہیں جہاں مور بھی ہوا کرتے تھے لیکن ہمیں نظر نہیں آئے۔ موروں کے پنجروں کے ساتھ ایک کنواں ہے جسے “سری کھوہ صاحب” کہا جاتاہے۔ کنویں کے ساتھ ہی ایک بم کا ٹکڑا بھی شیشے کے فریم میں نصب ہے کہا جاتاہے کہ یہ بم 1971 میں بھارت نے فائر کیا تھا جسے سری کھوہ صاحب نے اپنی گود میں لے لیا تھا اور گورودوارہ تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔

اب پاکستانی حکومت نے بھارتی سکھ برادری کیلئے گوردوارے کو کھولنے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن ابھی یہ کام فورا مکمل نہیں ہوسکتا کیوں کہ گورداورے سے بھارتی سرحد تک کے راستے میں نالہ بئیں اور دریائے راوی آتے ہیں۔ نالے اور دریائے راوی کو پار کرنے کیلئے بیڑے چلائے جاتے ہیں۔ فی الحال نالہ پار کرنے کی اجازت ہے لیکن راوی پار صرف وہاں کے زمیندار ہی جاتے ہیں۔ اب اگر حکومت نے یہ راستہ کھولنا ہے تو نالے اور راوی پر پل بنانا پڑے گا یا پھر بڑے بڑے بیڑوں اور کشتی کا انتظام کرنا پڑے گا۔ گوردوارے سے نالہ بئیں تک کی سڑک پر پتھر موجود ہیں جو کہ مشرف دور میں حکومت نےبھارتی سکھوں کیلئے یہ راستہ کھولنے کی غرض سے بچھائےتھے۔

یہ مقام سکھ برادری کیلئے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات کے بعد گوردوارہ دربار صاجب ایک لمبے عرصے تک بند رہا۔ اور جب کھلا تو بھارت میں بسی سکھ برادری کو ویزہ نہیں ملتا تھا۔ اب پاکستان نے نہ صرف سکھ برادری کیلئے اسے کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے بلکہ سکھوں کو بغیر ویزہ زیارت کرائی جائےگی۔ اس ارادے کو عملی جامہ بنانے کیلئے گوردوارے میں کام بھی زوروں سے جاری ہے۔ مقامی لوگوں کا کہناہے کہ یہ جلد آنے والے میلے کی تیاری ہے۔ میلے کی تیاری ہو یا اس کھولنے کی تیاری اب کی بار ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر سکھوں کے اس دیرینہ مطالبے پر کچھ پیش رفت ہوجانی چاہئے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close