بلاگ

ضمنی انتخابات: ضمنی حالات کیا بتاتے ہیں؟.

بروز اتوار 14 اکتوبر 2018، پاکستان میں 11قومی اور 26صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ جب کہ این اے 247 پر الیکشن 21 اکتوبر کو کروایا جائے گا۔ یہ نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کے دوسرے بڑے ضمنی انتخابات ہوں گے۔ اس سے پہلے 2013 میں 41 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 16نشستوں پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن کامیاب رہی۔ پیپلز پارٹی 7 اور تحریک انصاف 6 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ پچھلے دو ماہ میں حکومت کی فیصلہ سازی مقبول اور غیر مقبول فیصلوں کا مکسچر رہی ہے مگر ضمنی انتخابات میں قومی سیاسی ماحول کی بجائے ضمنی حقائق اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیے اس تحریر میں فوکس ضمنی حقائق پر کیا گیا ہے۔

ان ضمنی انتخابات میں سب سے اہم معرکہ لاہور میں ہونے جا رہا ہے جہاں 2 قومی اور 2 ہی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستیں شہباز شریف نے بھاری مارجن سے جیت کر خالی کیں تو این اے 124 حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست ہے جہاں حمزہ شہباز قریب 70000 کی لیڈ سے کامیاب ہوئے تھے۔ ان میں سے 2 نشستیں این اے 124 اور پی پی 164 اب بھی مسلم لیگ ن جیتنے میں کامیاب رہے گی البتہ یہاں جیت کا مارجن بہت کم ہو جائے گا۔ میرے اندازے کے مطابق این اے 124 سے شاہد خاقان عباسی کی لیڈ 10 سے پندرہ ہزار کے درمیان رہے گی جبکہ پی پی 164 پر مسلم لیگ ن 6 سے 8 ہزار کے مارجن سے جیتے گی۔ البتہ پی پی 165 پر کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے میاں منشا سندھو امیدوار ہیں جن کا عوامی رابطہ مستحکم ہے اور انہوں نے شہباز شریف کے مقابلے میں این اے 132 پر 54 ہزار ووٹ لیے تھے۔

سب سے دلچسپ اور کانٹے دار مقابلہ این اے 131 پر متوقع ہے۔ یہ سیٹ عمران خان نے محض چند سو ووٹ سے جیتی تھی اور ایک موقع پر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ عمران خان اس نشست پر سعد رفیق سے شکست کھا جائیں گے مگر کینٹ اور ڈیفینس سے بھاری ٹرن آوٹ نے بازی پلٹ دی تھی۔ اس حلقے میں سعد رفیق بہت متحرک ہیں اور بطور امیدوار ہمایوں اختر خان سے کہیں زیادہ پاپولر ہیں۔ ووٹ بنک کے لحاظ سے اس حلقے میں ٹائی ہے مگر تاریخی طور پر پی ٹی آئی کے مضبوط قلعوں کینٹ اور ڈیفینس میں ضمنی انتخابات میں بہت کم ٹرن آوٹ دیکھا گیا ہے جس وجہ سے سعد رفیق کا پلڑا کچھ بھاری دکھائی دیتا ہے مگر اس حلقے کے نتایج کا سارا دارومدار ٹرن آوٹ پر ہی ہوگا۔
راولپنڈی /اسلام آباد ریجن میں قومی اسمبلی کے 4 جبکہ صوبائی اسمبلی کے دو معرکوں پر پی ٹی آئی کی پوزیشن مستحکم ہے۔ این اے 54، این اے 60، این اے 63 اور پی پی 3 پی ٹی آئی با آسانی جیتنے میں کامیاب رہے گی جبکہ این اے 56 اٹک اورپی پی 27 جہلم میں مسلم لیگ ن سخت مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور کسی اپ سیٹ کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ ق پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کے زریعے این اے 65 چکوال اور این اے 69 گجرات پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ یہ دونوں نشستیں پرویز الہی نے خالی کی ہیں اور مسلم لیگ ق دونوں نشستیں بھاری مارجن سے جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ این اے 65 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار پہلے ہی مسلم لیگ ق کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں۔ اسی طرح میانوالی کی ایک صوبائی نشست پر بھی پی ٹی آئی امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔

فیصل آبادکے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 103 میں انتہائی دلچسپ مقابلہ ہو گا مگر پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر دکھائی دیتی ہے۔ اس ریجن کے دو صوبائی حلقوں پی پی 103 اور پی پی 118 پر بھی کانٹے دار مقابلوں کی توقع ہے مگر یہاں بھی پی ٹی آئی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ سنٹرل پنجاب کے ایک اور صوبائی حلقے پی پی 201 ساہیوال میں بھی سخت مقابلہ متوقع ہے۔ یہ نشست پی ٹی آئی کا مضبوط قلعہ سمجھی جاتی ہے مگر یہاںکسی مقامی ورکر کی بجائے اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سید صمصام بخاری کو ٹکٹ ملنے سے پی ٹی آئی کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے لیکن ابھی بھی پی ٹی آئی 5 سے 7 ہزار کی لیڈ سے جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔

جنوبی پنجاب میں 5 صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ پی پی 296 لیہ تو پی ٹی آئی بلامقابلہ ہی جیت چکی ہے جبکہ پی پی 222ملتان، پی پی 261 رحیم یار خان اور پی پی 272 مظفر گڑھ پر بظاہر پی ٹی آئی کو کوئی چیلنج نظر نہیں آتا۔ جنوبی پنجاب کی واحد نشست پی پی 292 پر کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے جہاں مسلم لیگ ن کی طرف سے سردار اویس لغاری امیدوار ہیں۔

کے پی کے میں 9 صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست پر مقابلہ ہے۔ صوبائی اسمبلی کی 8 نشستوں پر پی ٹی آئی کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ پی کے 53 اور این اے 35 میں گھمسان کا رن پڑنے کی امید ہے۔ پی کے 53 سابق وزیراعلی امیر حیدر ہوتی نے اور این اے 35 عمران خان نے معمولی مارجن سے جیت کر خالی کی تھیں۔ ان دونوں نشستوں پر ابھی کوئی پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ مقابلہ ففٹی ففٹی ہے۔ جس امیدوار نے بہتر الیکشن ڈے مییجمنٹ کی وہ جیت جائے گا۔

سندھ میں دو قومی جبکہ دو ہی صوبائی نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشست این اے 243 وزیر اعظم عمران خان جبکہ این اے 247 صدر عارف علوی نے خالی کی تھی۔ ان دونوں نشستوں پر پی ٹی آئی بھاری مارجن سے فتح یاب رہے گی۔ صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر پیپلز پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ بلوچستان کی دو صوبائی نشستوں پر بی اے پی اور بی این پی مینگل کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔

مجموعی طور پی پی ٹی آئی کو 24 ( قومی اسمبلی 7، پنجاب اسمبلی 9، کے پی اسمبلی 8) مسلم لیگ ن کو 6 (قومی اسمبلی 2، پنجاب اسمبلی4) مسلم لیگ ق کو قومی اسمبلی کی 2 جبکہ پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی کی دو نشستیں ملنے کا امکان ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close