تجارت

امیر ملک کی سڑکوں پہ بکھری کرنسی، لوگ ڈیکوریشن پیس بنانے لگے

کراکس: آپ سڑک پر پانچ روپے کا سکہ گرائیے اور پھر دیکھئے کہ یہ کتنی دیر وہاں موجود رہتا ہے۔ شاید چند منٹ سے زیادہ نہیں کیونکہ جیسے ہی اس پر کسی کی نظر پڑے گی وہ اسے اٹھا لے گا۔ ایک جانب ہم جیسے غریب ملک کی کرنسی کا یہ مقام، اور دوسری جانب تیل کی دولت سے مالا مال ملک وینزویلا کی کرنسی کی بے قدری کا عالم دیکھئے کہ ہزاروں، لاکھوں مالیت کے کرنسی نوٹ سڑکوں پر یوں بکھرے پڑے ہیں گویا یہ بے کار ردی ہو۔ اتفاق سے سچ یہی ہے کہ اب یہ کرنسی بے وقعت ردی سے زیادہ کچھ نہیں۔ میل لائن کے مطابق وینز ویلا کی کرنسی بولیور کا افراط زر 13ہزار فیصد کی ناقابل یقین حد کو پہنچ گیا ہے۔اب اس کرنسی کی بے توقیری کا یہ عالم ہے کہ سڑکوں پر بیٹھے مزدوروں نے اس سے سجاوٹ کی اشیاء، ہینڈبیگ اور چھوٹی چھوٹی خوبصورت ٹوکریاں بنا کر بیچنا شروع کردی ہیں۔
ایک مزدور ولیم روجاس نے بتایا کہ وہ کرنسی نوٹوں سے ہینڈ بیگ، پرس، ہیٹ اور ٹوکریاں بنا کر فروخت کررہے ہیں۔ روجاس کاکہنا تھا’’لوگ ان کرنسی نوٹوں کو سڑک پر پھینک دیتے ہیں کیونکہ یہ کسی کام کے نہیں ہیں او ران سے کوئی چیز خرید نہیں جاسکتی۔ آپ انہیں لے کر کسی دکان پر جائیں تو وہ انہیں قبول نہیں کرتے۔ میں جو چیزیں بناتاہوں اس کے لئے عام طو رپر میگزین کا کاغذ استعمال ہوتاہے۔ میں نے اس کی بجائے کرنسی نوٹوں کو استعمال کرنا شروع کردیاہے کیونکہ یہ پہلے ہی کٹے ہوئے چھوٹے سائز میں ہوتے ہیں۔ انہیں آپس میں جوڑ کر مختلف چیزیں بنانا زیادہ آسان ہے اور یہ میگزین کے کاغذ سے کہیں زیادہ پائیدار اور خوبصورت بھی ہیں۔ ان سے کوئی چیز خریدی تو نہیں جاسکتی لیکن ان سے چیزیں بنا کر بیچی ضرور جاسکتی ہیں۔ بعض غیر ملکی گاہک تو میری بنائی ہوئی چیزوں کے لئے 20 ڈالر (تقریباً 2 ہزار پاکستانی روپے) کی رقم ادا کر دیتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اتنی رقم کسی خزانے سے کم نہیں۔‘‘

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close