تعلیم و ٹیکنالوجی

برمودا ٹرائی اینگل کا ‘راز’ ایک مرتبہ پھر دریافت کرنے کا دعویٰ

سائنسدانوں نے دنیا کے پراسرار ترین خطے سمجھے جانے والے برمودا ٹرائی اینگل کا راز ایک بار پھر ‘دریافت’ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ خیال رہے کہ فلوریڈا، برمودا اور پیورٹو ریکو کے سمندری خطے کی تکون کو برمودا ٹرائی اینگل کا نام دیا گیا ہے جہاں دہائیوں سے بحری جہاز اور طیارے پراسرار طور پر غائب ہونے کی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں اور ان کا ملبہ بھی تلاش نہیں کیا جاسکا۔

برسوں سے سائنسدان اور دیگر حلقے ہر طرح کے نظریات پیش کرتے رہے ہیں تاکہ وہاں ‘پراسرار گمشدگیوں’ کی وضاحت کی جاسکے۔

درحقیقت سائنسدانوں نے کہا ہے کہ پیورٹو ریکو، فلوریڈا اور برمودا کے درمیان واقع اس سمندری تکون کا اسرار وہاں کی 100 فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔

برطانیہ کی ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کا ماننا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔

محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت طاقتور اور خطرناک تھی، جبکہ ان کی اونچائی 100 فٹ تک تھی۔

اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا، یہ وہ جہاز تھا جو 1918 میں برمودا ٹرائی اینگل میں 300 افراد کے ساتھ گم ہوگیا تھا۔

542 فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں 3 مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے، جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی۔

اس سے قبل امریکی سائنسدانوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اس خطے کے اوپر پھیلے شش پہلو بادل ممکنہ طور پر بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کا باعث بنتے ہیں۔

کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شش پہلو بادل 65 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں پیدا کرتے ہیں جو ‘ہوائی بم’ کی طرح کام کرتے ہوئے بحری جہازوں کو غرق اور طیاروں کو گرا دیتی ہیں۔

مگر کسی بھی تحقیق میں اب تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر بادل یا لہر جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہوجاتے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close