تعلیم و ٹیکنالوجی

بائیونک‘ پودے دھماکہ خیز مواد ڈھونڈ سکتے ہیں

اس تجربے کے دوران پودے کے پتوں میں چھوٹی چھوٹی ٹیوبیں لگا دی گئیں جو نائٹرو ارومیٹکس نامی کیمیکل کا پتہ لگا سکتی ہیں جو بارودی سرنگوں اور ایسے دیگر دھماکہ خیز میں پایا جاتا ہے جنھیں زمین میں دبایا جاتا ہے۔

اس کے بعد یہ معلومات وائرلیس کے ذریعے ایک دستی آلے کو بھیجی جاتی ہیں۔

میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یا ایم آئی ٹی کے اس تجربے کی تفصیلات کو نیچر میٹریئلز نامی رسالے میں شائع کی گئی ہیں۔

اس تجربے کے دوران سائنسدانوں نے پالک کے پتوں میں نینو پارٹیکلز اور کاربن نینو ٹیوبز نصب کی تھیں۔

نائٹرو ارومیٹکس کو پانی کے ذریعے پودے کی جڑوں تک پہنچایا گیا جو بعد میں پتوں تک پہنچ گیا۔ نائٹرو ارومیٹکس کے پتوں تک پہنچنے کے اس سارے عمل میں دس منٹ کا وقت لگا۔

سگنل حاصل کرنے کے لیے سائنسدان پتوں پر لیزر شعاعیں مارتے ہیں جس کی وجہ سے نینو ٹیوبز سے تقریباً انفراریڈ چمکیلی روشنی نکلتی ہے۔

اس روشنی کو ایک سستے سے راس بیری پائی کمپیوٹر پر لگے ہوئے کیمرے کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سگنل کو سمارٹ فون کے ذریعے بھی پکڑا جا سکتا ہے لیکن اس کام کے لیے سمارٹ فون پر لگے انفرا ریڈ فلٹر کو ہٹانا پڑتا ہے۔

ایم آئی ٹی کے پروفیسر مائیکل سٹرانو کا کہنا ہے کہ یہ اس اصول کا اہم ثبوت ہے۔ پروفیسر سٹرانو کی لیبارٹری اس سے پہلے ہائیڈرو پر آکسائیڈ، ٹی این ٹی اور اعصاب کو متاثر کرنے والی گیس سارِن کو ڈیٹیکٹ کرنے والے سینسر بھی بنا چکی ہے۔

سائنسی پیپر میں دیئے گئے طریقہ کار کو استعمال کر کے ریسرچر ایک میل کی دوری سے پودے کے سگنل حاصل کر سکتے ہیں۔ سائنسدان اس فاصلے کو مزید کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close