انٹرٹینمنٹ

عالمی فیشن میگزین ‘گراتزیا’ کی پاکستان آمد

بین الاقوامی فیشن جریدے ‘گراتزیا’ کا نام بھی ان عالمی فیشن میگزینوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جنھوں نے پاکستان کے لیے مقامی ایڈیشنز جاری کیے ہیں۔

اس سے پہلے ‘ہیلو’ اور ‘او کے’ پاکستان میں اپنے ایڈیشن شائع کر رہے ہیں۔

گراتزیا کو پاکستان میں ‘ہیلو’ کو ملک میں لانے والی زہرہ سیف اللہ نے ہی متعارف کروایا ہے۔

اس سوال پر کہ پاکستان جیسے ملک میں اس طرح کے مہنگے فیشن میگزین کی کتنی جگہ ہے اور کیا یہ معاشی نکتہ نظر سے فائدہ مند ہے؟ گراتزیا کی ایڈیٹر ان چیف زہرا سیف اللہ نے کہا کہ یہ نیا میگزین پہلے آنے والے عالمی جریدوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔

‘اس سے پہلے جو دو عالمی سطح کے میگزین یعنی ‘ہیلو’ اور ‘او کے’ پاکستان میں آئے ہیں وہ ماہنامے ہیں اور بنیادی طور پر طرزِ زندگی اور نامور شخصیات جیسے کھلاڑیوں، سیاستدان اور اداکار وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں جبکہ یہ میگزین نہ صرف پندرہ روزہ ہے اور روزمرہ فیشن کے بارے میں ہے۔

زہرا سیف اللہ کا کہنا تھا کہ کاروباری نقطۂ نظر سے یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے ‘ہیلو’ میگزین شروع کیا تو اس میں صرف 20 یا 30 اشتہار ہی ہوتے تھے اور اب اس میں ہر ماہ 80 سے 90 اشتہار ہوتے ہیں جبکہ اس کی ماہانہ اشاعت 18 ہزار سے بڑھ کر 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

‘اگر یہ ایک کامیاب کاروبار نہیں ہوتا تو اسےاشتہار نہیں ملتے اور دوسرامیگزین بھی شروع نہیں کیا جاتا۔’

انھوں نے کہا کہ کاروباری نظر سےدیکھیں تو ایک بین الاقوامی پبلشنگ ہاؤس کا پاکستان میں آنا بھی اہم ہے کیونکہ اس طرح کے میگزین عالمی فیشن مارکیٹ کے لیے ایک دریچے کا کام کرتے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر فیشن میگزین کا زور عروسی ملبوسات پر ہوتا ہے جبکہ گراتزیا میں توجہ روزمرہ کے فیشن جیسے دفتر میں یا کسی کھانےکی دعوت میں کیا پہنا جا سکتا ہے پر مرکوز رہے گی، اس طرح یہاں لوگوں کو معلوم ہوگا کہ کس عالمی طرز کو اپنا سکتے ہیں۔

معروف پاکستانی ڈیزائنر حسن شہریار یاسین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان کی بڑی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی صنعت سب سے اہم ہے اور 2005 میں جب سے کوٹہ سسٹم ختم ہوا ہے تب سے خام ٹیکسٹائل اور ڈیزائن کو اکھٹا کر کے مصنوعات تیار کرنا بہت ضروری ہے تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں اگر ہم اسے بین الاقوامی سطح پر متعارف نہیں کروا سکیں کیونکہ وہاں برآمدات کے لامحدود مواقع موجود ہیں۔’

پاکستان میں فیشن کی صنعت گذشتہ کئی سالوں سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور پاکستانی فیشن اب دنیا کے دیگر ممالک میں جگہ بنا رہا ہے جس کی مثال برطانیہ، امریکا اور دبئی میں پاکستانی ڈیزائنرز کی جانب سے تواتر کے ساتھ ہونے والے فیشن شوز ہیں۔

حسن شہریار یاسین نے کہا کہ اس طرح کے میگزین فیشن کے کاروبار کے لیے فائدہ مند ہیں کیونکہ تقریباً ہر میگزین میں 20 سے 30 فیصد مواد عالمی فیشن سے متعلق ہوتا ہے جبکہ اس طرح کے میگزین بین الثقافتی فیشن بھی شائع کرتے ہیں جس سے پاکستانی فیشن عالمی سطح پر ایک مربوط ذریعے سے متعارف ہوگاجس کا بہرحال فائدہ ملکی معیشت کو بھی ہوگا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close