اسلام آباد

بیرون ملک 10 ہزار جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرلی گئیں، وزیراطلاعات

وفاقی حکومت نے بیرون ملک 10 ہزار جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک اکاؤنٹس میں موجود پیسوں کو واپس لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس فورس بنا دی گئی ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیراطلاعات و نشریات اور وزیراعظم عمران خان کے معاون شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک اکاؤنٹس سے پیسہ واپس لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنا بڑی کامیابی ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے معاشی پالیسی کے تین اہم ستون ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پہلے نمبر پر کرپشن کے خلاف کارروائی، دوسرے نمبر پر بیرونی سرمایہ کاری اور کاروباری آسانیاں پیدا کرنا ہے۔

اس موقع پر شہزاد اکبر نے کہا کہ ٹاسک فورس نے کام شروع کردیا ہے اور بیرون ملک دبئی اور برطانیہ میں 10 ہزار جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں اور 300 کو نوٹس جاری ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حاصل تفصیلات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ایک تفتیش منی لانڈرنگ طرز میں ہورہی ہے، ان کے خلاف جنہوں نے عوامی عہدہ رکھا ہو ان کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تفتیش کا آغاز کیا گیا جس کو فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسران کی مشترکہ ٹیم دیکھ رہی ہے۔

دوسرا وہ لوگ جنہوں نے کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھا لیکن پاکستان سے باہر ان کے اثاثے ہیں اور وہ پاکستانی شہری یا رہائشی ہیں ان سے ٹیکس جمع کرنے کے لیے کوششیں شروع کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بتانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم کوئی جوئے شیر لائے ہیں بلکہ یہ 10 ہزار میں سے آدھی تفصیل ہمارے ہاں پہلے سے موجود تھی لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نیب اور دیگر ادارے پہلے خاموش بیٹھے تھے اب نئی حکومت آنے کے بعد متحرک ہوگئے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ یہ دبئی کی 3 سوسائٹیوں کی تفصیلات ہیں اور دیگر ممالک کے اداروں سے معلومات کا تبادلہ ہورہا ہے اور تفصیلات مل رہی ہیں جن پر متعلقہ ادارے کارروائی کریں گے۔

شہزاد اکبر نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی اسی معاملے پر ایک مقدمہ چل رہا ہے اور ہم کوئی الگ کام نہیں کررہے ہیں اثاثوں کی واپسی کے لیے کام کرنے والے افسران ہی ہیں جو سپریم کورٹ کے حکم پر تفتیش کررہے ہیں فرق یہ ہے کہ پہلے عدالت تن تنہا کام کررہی تھی اور اب حکومت بھی ان کےساتھ کھڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی اگلی سماعت میں ان 300 مقدمات کی تفصیل پیش کی جائے گی کیونکہ ہم عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں۔

وزیراعظم کے معاون نے کہا کہ ایف آئی اے کو متحرک کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس نظام کی جڑ تک پہنچے جو صدیوں سے رائج ہے جس میں لوگ پیسے باہر لے کر جاتے ہیں، فلائٹ، لانچوں اور ماڈلوں کے ذریعے پیسون کو باہر لے جاتے ہیں، یہاں کرپشن ایس آر او یا ان قوانین کی وجہ سے ہی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘سوئٹزرلینڈ کے ساتھ معاہدوں پر کام ہوگیا ہے اس پر جلد عمل درآمد شروع ہوگا اسی طرح متحدہ عرب امارات، چین، امریکا اور برطانیہ کےساتھ معلومات کے تبادلے کے لیے خاص کر کام کر رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سوئٹزرلینڈ کے ساتھ معاہدے 2014 میں ہونا تھے لیکن اسحٰق ڈار نے ایسا ہونے نہیں دیا تاہم اب اس کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے لیے جرمن حکومت سے بھی تفصیلات سرکاری طور پر مانگ لی گئی ہیں جس سے مستقبل کے علاوہ ماضی کی تفصیلات بھی مل جائیں گی’۔

بھارت کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے بھارت کی مثال ہے جس نے جرمن حکومت سے اس طرح کی معلومات حاصل کرلی تھیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی کے مطابق ‘پاناما اور پیراڈائز لیکس آنے کے بعد سپریم کورٹ نے ایک جے آئی ٹی بنائی تھی جو صرف ایک کیس کو دیکھ رہی تھی اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوا تاہم اس کو دوبارہ دیکھ رہے ہیں تمام ممالک کو معلومات کے لیے باقاعدہ درخواست بھیج دی ہے’۔

‘شہباز شریف، مشاہداللہ خان کو واجبات کا نوٹس بھیج رہے ہیں’

ان کا کہنا تھا ‘ماضی کی حکومتوں نے سرکاری وسائل کا غلط استعمال کیا اور کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں جو مجرمانہ حد تک چلی جاتی ہیں جس کی ایک مثال سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر استعمال کیا گیا جن پر 35 کروڑ روپے کا بل واجب الادا ہے اور ان کے بچوں پر 2 کروڑ 65 لاکھ واجب الادا ہیں’۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘مشاہداللہ خان نے ایک کروڑ کے لگ بھگ اپنے علاج کے لیے استعمال کیا اور پی آئی اے میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو بھرتی کروایا اور پی آئی اے سے اپنا علاج بھی کرایا جو پہلے ہی خسارے میں ہے’۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ‘فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس پر پہلے قدم میں حکومت کی جانب سے انہیں ان پیسوں کو حکومتی خزانے میں جمع کرانے کے لیے نوٹس دیا جائے گا اور ساتھ ہی تحقیقاتی اداروں کو بھی یہ معاملات بھیج رہے ہیں تاکہ تفتیش کی جاسکے’۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close