اسلام آباد

چیرمین نیب کو کرپشن کی رقم رضاکارانہ واپسی کا قانون استعمال کرنے سے روک دیا گیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چیر مین نیب کو رقوم کی رضاکارانہ واپسی کے قانون کے استعمال سے روکتے ہوئے گزشتہ 10 برسوں کے دوران رضاکارانہ واپس کی گئی رقوم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کرپشن کی رقم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق چیرمین نیب کے اختیار سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی اس  دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کرپشن کی رضا کارانہ رقم واپسی کی شق بنانے والوں کو شرم نہیں آئی؟ دیگر ممالک ہم پر ہنستے ہیں کہ کیسے قوانین سے ملک چلایا جارہاہے۔ عدالت سے بچنے کے لئے نیب کے پاس جا کر مک مکا کیا جاتا ہے، نیب مجرمان کو کرپشن کی رقم واپس کرنے میں قسطوں کی سہولت بھی دیتا ہے، ملزمان کو کہا جاتا ہے پہلی قسط ادا کرو، باقی کماؤ اور قسط دیتے رہو۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے نیب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب آرڈیننس کا سیکشن 25 اے کرپشن ختم کرنے کے لئے تھا بڑھانے کے لئے نہیں، 10 کروڑ روپے کی کرپشن کے ملزم سے 2 کروڑ لے کر باقی چھوڑ دیئے جاتے ہیں، رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے افسران عہدوں پر برقرار رہتے ہیں، رضا کارانہ رقم واپس کرنے والوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی شامل ہیں۔ سرکاری افسروں کے خلاف دس،دس سال انکوائریاں چلتی ہیں ،ایک طرف انکوائری چلتی ہے،دوسری طرف سرکاری افسر ترقیاں لیتے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نےریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے اس قانون میں مناسب ترمیم کا کہا لیکن غیر مناسب ترامیم کردی گئیں۔ نیب بازار میں آواز لگاتا ہے، کرپشن کرو اور رضا کارانہ رقم واپس کرو، ملزمان کو خط لکھ کر رقم کی رضا کارانہ واپسی کا کہا جاتا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ تقرریوں کے حوالے سے چیئرمین نیب کا اختیار تو ملک کے چیف ایگزیکٹو سے بھی زیادہ ہے۔ جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ ادارے میں کی کی گئیں تمام تقرریاں اور ترقیاں قواعد کے مطابق ہوئیں ہیں۔ نیب کے وکیل کی بات پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب کا قواعد پرعمل درآمد حیران کن ہے ، ادارے میں ایک انجینئر کو ڈی جی لگایا ہوا ہے۔

سپریم کورٹ نے چیئر مین نیب کو رقوم کی رضاکارانہ واپسی کے قانون کے استعمال سے روک دیا،عدالت نے نیب سے گزشتہ دس سال میں رضاکارانہ واپس ہونےوالی رقوم کی تفصیلات بھی مانگ لیں اب کیس کی مزید سماعت 7 نومبر کو ہوگی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close