دنیا

امریکی فوج کے تعاون سے اسرائیلی سٹیلتھ طیارے عراق اور شام سے ہوتے ہوئے ایران میں گھس گئے اور پھر۔۔ کویتی اخبار کی خبر پہ روس کا فوری ردعمل

ایک کویتی اخبار الجریدہ نے دعویٰ نے کیا ہے کہ 2 اسرائیلی ایف 35 سٹیلتھ طیاروں نے عراقی اور شامی فضائی حدود استعمال کرکے نہ صرف ایران کی حدود میں مداخلت کی بلکہ بندر عباس، اصفہان اور شیراز میں اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کے بعد واپس لوٹ گئے۔ دوسری جانب روسی اخبار سپوتنک نے روسی وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں لگے ہوئے روسی ریڈار سسٹم کو چکمہ دینے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔کویتی اخبار الجریدہ نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے جدید ترین ایف 35 لڑاکا طیارے ،جن کا تعلق اسرائیل سے تھا، نے عراقی اور شامی فضائی حدود کا استعمال کرتے ہوئے خلیج فارس کی جانب سے ایران میں مداخلت کی اور اونچی پرواز کرتے ہوئے جوہری تنصیبات سے متعلقہ اثاثوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان طیاروں کو ایرانی اور شام میں لگا ہوا روسی ریڈار سسٹم پکڑنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے ۔ذرائع نے تصدیق کی کہ اس وقت اسرائیلی فضائیہ کے 7 ایف 35 طیارے شام اور لبنان کے بارڈر پر آپریشنز کیلئے متحرک ہیں ، یہ طیارے با آسانی ری فیولنگ کے بغیر ہی ایران کے 2 چکر کاٹ سکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ اسرائیل نے یہ آپریشن امریکہ کی مدد سے کیا ہے تاہم اخبار کے ذرائع نے اس کی تصدیق یا تردید سے انکار کیا ہے۔دوسری جانب روسی اخبار سپوتنک نے روسی وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں کے روسی ریڈار سسٹم کو چکمہ دینے کی خبریں بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ جب طیارے انتہائی اونچی پرواز کرتے ہیں جیسا کہ اسرائیلی طیاروں کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے تو ایسے میں انہیں ٹریس کرنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے اس لیے کوئی بھی ملک خفیہ مشن کے دوران طیاروں کی اونچی پرواز کا رسک نہیں اٹھاتا ۔ شام میں لگے ہوئے روس کے ریڈار سسٹم نے کئی بار اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا ہے اور بروقت میزائل ڈیفنس سسٹم کو اطلاع کرکے کئی میزائل حملوں کو ناکام بنایا ہے ۔ روسی ڈیفنس سسٹم نے ایسے میزائلوں کو بھی گرایا ہے جن کی جسامت ایف 35 طیارے سے کہیں چھوٹی تھی اس لیے یہ کہنا کہ اسرائیلی طیارے اس ریڈار سسٹم کو چکمہ دے کر ایران میں داخل ہوئے ہیں تو یہ مضحکہ خیز ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close