بلاگ

مردم شماری، پس منظر؛ دیگر ممالک میں اہمیت اور طریقہ کار

لاہور: مردم شماری کسی مخصوص علاقے میں آباد لوگوں کے متعلق تمام معلومات اور اعداد و شمار کو ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت حاصل کرنے اور منظم کرنے کا نام ہے۔ مردم شماری کی تعریف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی ملک میں آباد لوگوں کے بارے میں معلومات کا حصول ایک مقررہ وقفے کے بعد تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے، تاکہ کام یاب قومی پالیسی سازی کے لیے درکار معلومات نہ صرف بروقت میسر رہیں بل کہ مستقبل میں ظاہر ہونے والی صورت حال کا درست ادراک بھی کیا جاسکے۔

آج کے جدید عہد میں دنیا بھر کے ممالک میں درست پالیسی سازی کے لیے مردم و خانہ شماری کو غیرمعمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں United States Census Bureau (USCB) موجود ہے جسے عرف عام میں Bureau of the Census بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایجنسی امریکا کے اندر آبادی اور معیشت کے بارے میں تمام تر معلومات جمع کرنے کی ذمے دار ہے اور اسے U.S FEDERAL STATISTICAL SYSTEM کی اہم ترین ایجنسی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایجنسی ہر دس برس بعد ملک میں مردم و خانہ شماری کرنے کی پابند ہے۔ اسی ایجنسی کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ملک کی تمام ریاستوں کو ایوان نمائندگان میں نشستیں فراہم کی جاتی ہیں جن کا تعین آبادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

ہر دس برس بعد مکمل مردم شماری کے علاوہ یہ ایجنسی مسلسل مختلف قسم کی معلومات اور اعدادوشمار جمع کرنے میں مصروف رہتی ہے جس میں کئی طرح کی معلومات کا حصول اور مختلف سروے شامل ہوتے ہیں جن میں American Community Survey , US Economic Census اور Current Population Survey خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا کی وفاقی حکومت معاشی اور بیرون ملک تجارت کے بارے میں جو رجحانات ظاہر کرتی ہے وہ بھی مردم شماری بیورو کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہوتے ہیں۔ مردم شماری بیورو امریکا کے شعبہ کامرس کا حصہ ہے اور اس کے ڈائریکٹر کا تقرر امریکی صدر کرتا ہے۔ یہ ادارہ آج سے 114 برس قبل یکم جولائی 1902ء کو قائم ہوا۔

برطانیہ کے مختلف حصوں میں 1801 سے مکمل مردم اور خانہ شماری کا سلسلہ جاری ہے جو ہر دس برس بعد ہوتی ہے۔ اس تسلسل میں صرف دو مرتبہ رخنہ پڑا۔ پہلی بار 1921ء میں آئرلینڈ میں مردم شماری نہ ہوسکی جب کہ دوسری جنگ عظیم کے باعث 1941ء میں پورا ملک مردم شماری سے محروم رہا۔ برطانیہ کی آخری مردم شماری 2011ء میں ہوئی۔ برطانیہ کا مردم شماری ایکٹ 1920ء مردم شماری کے لیے قانونی ڈھانچا فراہم کرتا ہے جس کے تحت اسکاٹ لینڈ، انگلینڈ اور ویلز میں مردم شماری ہوتی ہے۔ برطانیہ کا Office For National Statistics ملک میں مردم شماری کرانے کا ذمے دار ہے۔

24 اپریل 1966ء کو برطانیہ میں مردم شماری کے لیے ایک نیا طریقۂ کار متعارف کرایا گیا جسے لانگ فارم/ شارٹ فارم  (Long form/ Short form) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طریقے کے تحت ہر گھرانے کو ایک شارٹ فارم یعنی چھوٹا فارم فراہم کیا جاتا ہے، جس میں گھر کا پتا، جنس، عمر اور گھر کے افراد کے باہمی رشتوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ لانگ فارم یعنی تفصیلی فارم ساری آبادی میں سے طے شدہ تعداد کو فراہم کیے جاتے ہیں، جن میں نہایت تفصیل کے ساتھ معلومات کی فراہمی درکار ہوتی ہے۔ برطانیہ کی تاریخ کی حالیہ مردم شماری اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس مرتبہ پانچ برس کے وقفے سے مردم شماری کرائی گئی ہے۔

چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، اس لیے لازمی طور پر چین میں مردم و خانہ شماری کا کام بہت بڑے چیلینج سے کم نہیں ہوتا ہوگا۔ چین میں National Bureau of Statistics مردم شماری کرانے کا مجاز ادارہ ہے جس نے 2010ء میں چھٹی قومی مردم شماری کے مراحل کام یابی سے مکمل کیے ہیں۔ چین میں مردم شماری بیورو آف اسٹیسٹکس کے قواعد و ضوابط کے تحت ہوتی ہے، جس کے انعقاد کا حکم نامہ ریاستی کونسل کی جانب سے جاری ہوتا ہے۔ چین کی حالیہ مردم شماری پر 7 ارب یوان خرچ آیا۔ چین کی مردم شماری میں ہر علاقے میں آباد لوگوں کے چین کی کل آبادی میں تناسب کی کمی بیشی کا حساب بھی مرتب کیا جاتا ہے۔

بھارت میں مردم شماری Office of the Registrar General and Census Commissioner کی ذمے داری ہے جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ بھارت میں مردم شماری کے لیے مستقل قانون موجود ہے۔ جو بھارت مردم شماری ایکٹ 1948ء کہلاتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ مردم شماری کی تاریخ کا اعلان کرے۔ وفاق میں مردم شماری کمشنر اور صوبوں میں سپرنٹنڈنٹس کی تعیناتی کرے۔ اس ایکٹ کے تحت سرکار مردم شماری کے لیے کسی بھی شخص کی خدمات حاصل کرسکتی ہے۔ اس ایکٹ سے تحت مردم شماری کے لیے ضروری سوالات کا غلط جواب دینے یا جواب دینے سے انکار پر سزا دی جاسکتی ہے۔ اس ایکٹ کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ مردم شماری کے دوران تمام شہریوں کی فراہم کردہ معلومات کو پوشیدہ رکھنے کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close