بلاگ

آٹزم کا شکار لوگ کم جیتے ہیں

ایک نئی تحقیق کے مطابق آٹزم یعنی خود فکری کا شکار افراد عام لوگوں کے مقابلے میں کم جیتے ہیں جبکہ اموات کی اہم وجوہات خودکشی اور مرگی ہیں۔

سویڈن کے خیراتی ادارے آٹسٹیکا کی جانب سے کی جانے والی تحقیق نے اسے ’پوشیدہ شدیدبحران‘ سے تعبیر کیا ہے۔

سائنسی جریدے برٹش جرنل آف سائیکیٹری میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کی عمر 16 سال سے کم ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق برطانیہ کی آبادی کا ایک فیصد، یعنی سات لاکھ افراد آٹزم کا شکار ہیں۔

خیال رہے کہ آٹزم کا شکار افراد کو دوسروں سے گفتگو کرنے اور تعلق بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سویڈن میں کی گئی تحقیق میں 27 ہزار آٹزم کا شکار بالغ افراد اور 27 لاکھ عام آبادی کو شامل کیا گیا تھا۔

کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ کی اس تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ افراد جو آٹزم اور اس سے متعلق دیگر استعدادی معذوریوں کا شکار ہوتے ہیں، ان کی اوسطاً عمر 39 سال ہوتی ہیں۔ یعنی ان کی اموات عام آبادی سے 30 سال قبل ہوجاتی ہیں۔

اس گروہ کے افراد میں اموات کی بڑی وجہ مرگی تھی

سائنسدان اب تک آٹزم اور مرگی کا باہمی تعلق دریافت نہیں کرسکے ہیں۔

سویڈن کی تحقیق کے مطابق آٹزم کا شکار وہ افراد جن میں دیگر استعدادی معزوریاں نہیں تھیں ان کی اوسطاً عمر 12 سال کم، یعنی 70 سال کے بجائے 58 سال تھی۔

اس گروہ میں دل کی بیماری کے بعد اموات کی عام وجہ خودکشی پائی گئی ہے۔

ماضی میں کی گئی تحقیقات اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں خودکشی کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ جبکہ خودکشی کی جانب راغب ہونے والے محض نصف فیصد افراد ڈپریشن کاشکار تھے۔

سنہ 2015 میں آن لائن شائع ہونے والی تحقیق کی مصنف ڈاکٹر ٹیٹجا ہیرویکوسکی تحقیق کے نتائج کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ’افسوسناک اور دل دکھانے والے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں ’مزید آگاہی حاصل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔‘

آٹسٹیکا کے چیف ایگزیکیٹو جان سپیئرز نے

بتایا کہ آٹزم کا شکار بالغ افراد میں اموات کی شرح ’پوشیدہ شدید بحران‘ ہے۔

آٹزم کا شکار ایک چوتھائی افراد یا تو بہت کم الفاظ بول سکتے ہیں یا پھر بالکل نہیں بول سکتے جبکہ اعداد و شمار کے مطابق صرف 15 فیصد افراد کُل وقتی ملازمت ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خیراتی ادارے کے مطابق آٹزم کا شکار تین چوتھائی افراد کم از کم ایک متعلقہ دماغی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ 40 فیصد افراد دو مزید بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔

برطانیہ کی نیشنل آٹزٹک سوسائٹی کے چیف ایگزیکیٹو مارک لیور کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ سمجھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کہ برطانیہ میں صورت حال مختلف ہوگی۔‘

محکمہ صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ملک میں آٹزم جیسے مرض کے علاج میں ہم نے اہم ترین پیش رفت کی ہے، تاہم ہمیں اس عمل کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘

19 سالہ ایلی آٹزم کا شکار ہیں اور حال ہی میں انھیں دورے پڑنا شروع ہوئے ہیں۔

ایلی کی والدہ جِل ایکرز کہتی ہیں ’اپنی اولاد کو دورہ پڑتے ہوئے دیکھنا پہلے ہی انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ امر ہے۔‘

’اور پھر یو جاننا کہ آٹزم کا شکار ہونے کے باعث مرگی سےان کی موت جلد ہوسکتی ہے دگنا دھچکا ہے۔‘

’ہمیں مکمل جوابات کی فوری ضرورت ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم کچھ نہ کریں اور تحقیق اور مرض کے لیے مخصوص دیکھ بھال کی کمی کے باعث آٹزم کا شکار افراد کو مرتے ہوئے دیکھتے رہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close