بلاگ

پی ٹی آئی کے 20 سال اور دیگر جماعتیں

پاکستان میں کم سن سیاسی جماعتوں میں سے ایک تحریک انصاف ہوا کرتی تھی۔ تمام ملک کے لیے لمحہ راحت اس کا ’ٹین ایج‘ سے نکل جانا ہے۔

کہتے ہیں ٹوئنٹیز میں قدم رکھنے والوں میں زیادہ بالیدگی، سنجیدگی اور اخلاص ہوتا ہے۔ تو کیا عمران خان کی سیاست اور سیاسی جماعت سے ان عناصر کی اب زیادہ توقع کی جاسکتی ہے؟

ویسے تو پاکستان مسلم لیگ ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز رکھتی ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد سنہ 1948 میں جس مسلم لیگ کی بنیاد لیاقت علی خان نے رکھی تھی وہ آج وجود رکھتی بھی ہے یا نہیں؟ لہٰذا اس بحث سے قطع نظر کہ اصل مسلم لیگ کے جان نشین کون ہیں آج کے سیاسی اکھاڑے میں نواز شریف کی مسلم لیگ ہی سب مسلم لیگوں سے زیادہ متحرک اور موثر ہے۔

اس کا قیام فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں ہوا جسے ان کی موت کے بعد نواز خاندان نے مکمل طور پر گود لے لیا۔ اس اعتبار سے یہ جماعت 31 سال پرانی ہے یعنی کب کی بالغ اور قدرے پرانی جماعت بن چکی ہے۔ یہ جماعت اور اس کے رہنما شاید اسی لئے تجربہ کار، ہوشیار اور اگر عمران خان کی بات تسلیم کر لیں تو چالاک بھی بہت ہیں۔

پیپلز پارٹی سنہ 1967 میں قائم ہوئی اور اس طرح 49 سال کی عمر کے مشکل حصے میں ہے۔ اس کی موجودہ کیفیت اگر محسوس کی جاسکے تو جیسے وقت سے قبل بوڑھا انسان جیسی لگنے لگی ہے۔ ایسی جماعت جو اپنی ’رولر کوسٹر‘ سفر میں اب تقریباً ’خرچ‘ ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں کہا جاسکتا لہذا ہوسکتا ہے اس جماعت کا یہ برا دور مختصر ہو۔ تاہم جماعت کی موجودہ قیادت کوئی ایسے اشارے نہیں دی رہی کہ جس سے اس کے مستقبل کے بارے میں امید بڑھ سکے۔ پیپلز پارٹی قبل از وقت بڑھاپے کا شکار ہے۔

ملک گیر جماعتوں میں جماعت اسلامی پرانی دینی سیاسی جماعت ہے۔ اس کا قیام سنہ 1941 میں ہوا۔ انسانی عمر کے اعتبار سے اس جماعت کا شمار بڑے بوڑھوں میں ہوتا ہے۔ ویسا ہی بزرگ جس کی بات آج کل کی نسل انتہائی ادب و احترام سے سنتی ہے، ان کے سامنے سر دھنتی ہے لیکن کرتی اپنے من میں جو آئے وہی ہے۔

دوسری بڑی مذہبی جماعت جعمیت علمائے اسلام (ف) بھی 80 کی دہائی سے تقریباً عمر کی وہی نشانیاں ظاہر کر رہی ہے جو اس کی ہم عمر مسلم لیگ نون کی ہیں یعنی چالاک، بالغ، سنجیدہ اور ہوشیار۔

اب آتے ہیں اس جماعت کی جانب جس نے اتوار کو اپنی 20 ویں سالگرہ منائی۔ تحریک انصاف اب تصدیق شدہ بالغ جماعت تصور کی جائے گی۔

عمران کی جماعت نے اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ لاہور میں سنہ 2011 یعنی 15 سال کی کم عمر میں ایک بڑے سیاسی جلسے سے کیا۔

سنہ 2013 کے عام انتخابات میں اس کی نظریں تو پورے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے جیسی نوکری پر تھیں لیکن نتائج نے انھیں خیبر پختونخوا میں پارٹ ٹائم جاب مل گئی۔

ایک ایسے وقت جب تحریک انصاف بلوغت کا جشن اسلام آباد میں منا رہی تھی ملک کے انتھائی جنوب میں کراچی میں ایک نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین اپنی پیدائش کا جشن منا رہی تھی۔

پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے فیملی پلاننگ کی طرح سیاسی جماعتوں کی تعداد کے لیے بھی شاید اب کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

عمران خان کو اپنے 20سالہ سیاسی کریئر میں بہت سی کامیابیاں یقیناً ملی ہیں لیکن زیادہ توجہ اپنی خامیوں پر بھی دینا ہوں گی۔ ان میں سے ایک سیاسی بیانات کی حد تک مستقل مزاجی ہے۔ اس کی ایک چھوٹی مثال 35 پنکچر کا الزام تھا۔

محض میڈیا میں بےتکی باتوں کی بنیاد پر ہر وقت رہنا کسی بھی طرح کوئی مثبت پالیسی نہیں۔

عمران خان نے لاہور میں اپنے جلسے میں کئی وعدے کئے تھے جن میں سے ایک سچ بولنا بھی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک زبردست تبدیلی صرف ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر بات کرنا بھی ہوگی۔

سب کو معلوم ہے پانامہ لیکس کی وجہ سے جو نام سامنے آئے ہیں وہ کتنے پانی میں ہیں۔ آپ لندن ماہرین سے مشاورت کے لیے گئے لیکن واپس آکر کسی کو نہیں بتایا کہ ان کی ماہرانہ رائِے کیا تھی۔ بس سنے کو وہی الزامات ہیں۔ باقی ٹونٹیز میں ماہرین کہتے ہیں فوکس بہتر ہوتا ہے۔ عمران خان خود بھی کہتے ہیں پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close