بلاگ

متبرک کلمات کے مہلک اثرات

بلاگ: اویس احمد

حکومت کی انتخابی ایکٹ میں ترامیم کے رد عمل کے طور پر فیض آباد پر سڑک نشین دھرنے نے ملک کے اندر ایک ہیجان بپا کر رکھا ہے۔گزشتہ روز کےحکومتی آپریشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات جہاں پورے پاکستان کے لیے افسوس ناک ہیں وہیں اس دھرنے سے یگانگت کا مظاہرہ ہمارے لیے ذاتی طور پر اندوہناک ثابت ہوا۔

عوام کی بے شعور اکثریت میں ہم بھی شامل ہیں چناچہ جب حکومت کے خلاف یہ دھرنا عمل پذیر ہوا تو ہم نے بھی اس دھرنے کی حمایت کا اعلان کر ڈالا۔اس حمایت کو پائیدار بنانے کے لیے ہم نے دھرنے کے سرخیل کی تقاریر کو سننے کی ٹھانی تاکہ قوت ایمانی کو مہمیز لگاسکیں۔سوشل میڈیا کے طفیل گھر بیٹھے موصوف کی غیر متحرک مگر متبرک اور مقدس الفاظ پر مشتمل کچھ تقاریر ہاتھ آ گئیں۔یقین مانیئے کہ بلند آہنگ اور غیر متزلزل لہجے میں کی گئی تقاریر دل کو چھو گئیں۔علامہ اقبال کا وہ شعر پوری طرح ہماری سمجھ میں آ گیا جس میں علامہ نے جواں مردوں کو آئینی تناظر میں حق گوئی و بےباکی کی ہلہ شیری دی تھی۔اور یہ بھی سمجھ گئےکہ کیوں دی تھی۔بے شعور عوام کی طرح ہم بھی غیر مشروط مقلد ہیں لہٰذا ہم نے اپنی ہم خیال باتوں کو ذہن نشین کر لیا تاکہ ان افکارِ عالیہ کو مفادِ عامہ میں فروغ دیا جا سکے۔

سوئے اتفاق،آج اتوار کی وجہ سے تعطیل ہے اور ہمارا ہفتہ واری معمول ہے کہ ہم ہفتہ بھر کا سودا سلف اتوار کے روز جمع کر لاتے ہیں چناچہ قصد کیا اتوار بازار کا جہاں سے مناسب نرخوں پر اشیائے ضرورت میسر ہوتی ہیں۔گھر سے بذریعہ “نجی”ٹیکسی عازم سفر ہوئے تو کچھ آگے سڑک بند تھی اور گاڑیوں کا ایک اژدہام تھا۔دریافت کرنے پر معلوم پڑا کہ فیض آباد دھرنے کی وجہ سے راستہ بند ہے لہٰذا متبادل راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔کوفت تو بہت ہوئی مگر چونکہ ایک نیک مقصد کی خاطرراستہ بند تھا اس لیے نامناسب جذبات کو دبا کر صبر کا مظاہرہ کیا۔قریب ڈیڑھ گھنٹے بعد متبادل راستہ ملا۔تب تک ٹیکسی کا میٹر ہمارا میٹر گھما چکا تھا۔”کریم” اور “اوبر” استعمال کرنے والے ہماری اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہوں گے۔

اپنے شہر کے تمام نو دریافت شدہ راستوں سے گذرنے کے بعد جب تین گھنٹے اور ستاون منٹ کی مسافت اختتام پذیر ہوئی تو سولہ سو روپے کا ٹیکسی کا بل ہمارا منہ چڑھا رہا تھا۔بے اختیار ہماری زبان سے افکارِ عالیہ کا پہلا شاہکار برآمد ہوا “اوئے دَل۔۔۔” اوراس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ پاتے ہمارا گریبان اس تندرست و توانا نوجوان کے ہاتھ میں تھا جو ٹیکسی کا “کپتان” تھا۔ہم نے کپتان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ لفظ متبرک ومحترم ہے مگر کپتان کی سمجھ میں ہماری بات نہیں آئی اور اس نے انتہائی ناقابل اشاعت الفاظ میں ہم سے کرایہ کا مطالبہ کیا۔کرایہ تو ادا کرنا ہی تھا سو ادا کیا مگر کپتان کا یوں اچانک بھڑک اٹھناہماری سمجھ میں نہیں آیا۔

اس اہانت آمیز سلوک کو پیتے ہوئے اتوار بازار میں داخل ہوئے۔ اشیائے ضرورت کی لسٹ ہمارے ہمراہ تھی چناچہ لسٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے ہم کریانہ اسٹور پر جا دھمکے۔آٹا،دال،چاول اور مصالحہ جات وغیرہ جو جو شے لسٹ میں درج تھی نکلوا کر کاؤنٹر پرڈھیر کرواتے گئے۔جب تمام اشیا پوری ہو گئیں تو بل کا مطالبہ کرنے کے لیے ہم نے افکار عالیہ کے دوسرے شاہکار کا استعمال کیا اور کہا “اوئے خنزی۔۔”

اپنا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہم نے خود کو اتوار بازار کے فرش پر دھرنا افروز پایا۔ہم اس بات کا تعین نہیں کر سکے کہ ہمارے رخسار پر شدید جلن کی وجوہات کیا تھیں۔مگر وہ انتہائی اشتعال انگیز الفاظ اب تک ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں جو اس ایک منٹ کے دھرنے کے دوران ہماری شان میں ادا کیے گئے۔اسلام آباد کی تاریخ کا یہ مختصر ترین دھرنا ناگزیر وجوہات کی بنا پر فوری طور پر ختم کرنا پڑا ۔تاخیر کی صورت میں اندیشہ تھا کہ متحارب قوتوں کی “باٹ باری” سے نقص امن کی صورت حال نہ پیدا ہو جائے ۔

افکار عالیہ کے شاہکاروں پر عوام کارد عمل خاصا حوصلہ شکن تھا۔دل و دماغ میں منتشر ومفسد خیالات کی آمد شروع ہو چکی تھی۔اسی ادھیڑ بن میں پیش قدمی کرتے ہوئے ہم نے قصاب کی دوکان پر پڑاؤ ڈالا۔گذشتہ دو تجربات کے پیش نظر اس مرتبہ ہم محتاط تھے مگرعلامہ اقبال کی آئین جواں مرداں والی ہلہ شیری بھی مرہونِ خیال تھی ۔قصاب کے بغدے کو نگاہوں کے حصار میں رکھتے ہوئے ایک عدد مرغی حلال کرنے کی ہدایت کی۔قصاب نے برائلر مرغیوں کے پنجرے میں ہاتھ ڈالا تو مرغیوں نے پھڑپھڑانا شروع کر دیا۔ادھر ادھر اچھلتی کودتی مرغیوں نے خود کو قصاب کے بے رحمانہ ہاتھ سے بچا لیا اور گرفت میں آ گئی ایک توانا مگرلنگڑی مرغی۔قصاب نے اسے گھسیٹ کر پنجرے سے نکالا تو مرغی نے پرزور صدائے احتجاج بلند کی۔

ہمارےذہن نے،جو علامہ اقبال کے آئینِ جواں مرداں پر غور کرتے ہوئے اس میں آئینی ترامیم کرنے میں مشغول تھا ،مرغی کے صوتی تاثرات کو یکسر تبدیل کرڈالا اور ہمارے کانوں سے جو آواز ٹکرائی وہ تھی “تہواڈی پین دی۔۔۔” اور یہی الفاظ فی البدیہہ ہماری زبان پر جاری ہو گئے۔

اس وقت ہم اتوار بازار کے عقب میں واقعے برساتی نالے میں پناہ گزین ہیں۔ہمارے افکار عالیہ کے شاہکاروں کا ابلاغ ، اتوار بازار میں اشتعال کے فروغ کا باعث بن گیا تھا اور مشتعل افراد نے ہمارے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا تھا۔چوں کہ آپریشن کی براہ راست نشریات پر پابندی عائد کی جا چکی ہے لہٰذا آپ لمحہ بہ لمحہ صورت حال سے آگاہ نہیں ہو سکتے۔برساتی نالے کا تاحال محاصرہ جاری ہے۔اگر ہم اس محاصرے کو توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ کو مزید صورت حال سے آگاہ کر دیں گے ۔ورنہ آپ لاعلمی کی بنا پر فرض کر لیجیئے گا کہ ہمارے ساتھ “پین دی سری” ہو گئی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close