بلاگ

یوم یکجہتی کشمیر

لکھاری: مختار احمد
مقبوضہ کشمیر ہمارا اٹوٹ رنگ ہے جہاں نہ صرف سر سبز وادیاں، دلکش جھرنے، ندیاں، خوبصورت آبشار ہیں وہیں ہمالیہ کے سرکش پہاڑ بھی فخر سے کھڑے آسمان کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔ قدرت کی ان رعنائیوں کو دیکھ کر اس کا شمار پرستانوں میں کیا جاسکتا ہے۔

یہ برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست ہے جس کا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے۔ 1947 کے بعد ریاست جموں کشمیر میں تقسیم ہوگئی۔ اس وقت بھارت 39102 مربع میل پر قابض ہے جو ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگر ہے، بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہوا ہے؛ اور اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جس میں سے 25 لاکھ آزاد کشمیر میں ہیں۔

ہندو راجاؤں نے تقریباً 4 ہزار سال تک اس علاقے پر حکومت کی۔ 1846 میں انگریزوں نے ریاست جموں کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجا غلام سندھ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہندو راجا نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوا۔

سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949 کو جنگ بندی ہوگئی۔ سلامتی کونسل نے 1948 میں منظور شدہ دو قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کشمیر کروانے کےلیے کہا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کرلیا مگر بعد ازاں اپنے اس وعدے سے منحرف ہوگئے۔ پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کردی جبکہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ اب بھی جاری ہے، حالانکہ اس مسئلے کے حل میں اقوام متحدہ کا عالمی فورم، کشمیری عوام کے استصواب رائے کے مطالبے کو تسلیم کرچکا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اب بھی یہی مسئلہ تنازعے کی صورت میں برقرار ہے اور دونوں ممالک اس سلسلے میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ کشمیر کا بچہ بچہ آج بھی اسے پاکستان کا حصہ ہی تسلیم کر تا ہے اور وہاں کشمیر کی آزادی کے نام پر شہادت پانے والوں کو آج بھی پاکستان پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جا تا ہے۔

ویسے تو کشمیری حریت پسند، اپنی آزادی کی یہ جنگ گزشتہ 70 سال سے بدستور لڑرہے ہیں جس کی پاداش میں 40 لاکھ سے زائد کشمیری بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ آزادی کی اس راہ میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ 70 سال سے وہاں تعینات بھارتی فوجیوں، اسپیشل فورسز اور پولیس نے، جن کی تعداد آج 8 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے، مسلمان نہتے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔

روزانہ کی بنیادوں پر وہاں خواتین کی عصمتیں تار تار کی جارہی ہیں، ماؤں اور بہنوں سے ان کے سہاگ چھینے جارہے ہیں، لاکھوں بچے یتیم ہوچکے ہیں مگر آج بھی ان کشمیریوں کے لب پر ایک ہی صدا گونج رہی ہے: ’’کشمیر بنے گا پاکستان،‘‘ مگر اس سلسلے میں پاکستان میں آنے والی حکومتوں نے سوائے لفظی جنگ اور مسئلے کو عالمی فورم کے اٹھائے جانے کے، اور کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اسی بناء پر آج بھی مقبوضہ کشمیر اسی جگہ کھڑا ہے جہاں 70 سال سے کھڑا تھا۔

بھارتی افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جس کے تحت نہ صرف مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کیا جارہا ہے بلکہ خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں، جبکہ کشمیر کے نونہال مستقبل سمیت نوجوانوں کی آنکھیں نکالی جا رہی ہیں اور ان پر ربڑ اور لوہے کی وہ گولیاں برسائی جا رہی ہیں جن کے نتیجے میں لاتعداد افراد بلاناغہ معذور ہو رہے ہیں۔ مگر ماسوائے اللہ کے، ان کا بھری دنیا میں کوئی اُن کے حقیقی حال سے واقف نہیں۔ عالمی فورم اور اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بن کر اس ظلم و بربریت کو دیکھ رہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکا، بھارت سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کےلیے اس سے پینگیں بڑھارہا ہے اور شاید وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت ہی کا حصہ تسلیم کرچکا ہے، لہذا وہ کسی نہ کسی طریقے سے بھارت کی سرپرستی کرنے میں مصروف عمل ہے۔

مگر اس سلسلے میں مظلوم کشمیریوں کے عزائم کچھ اور ہیں اور ان کی رگ رگ میں جدوجہد آزادی، خون کی مانند بہہ رہی ہے؛ اور وہ الحاق پاکستان چاہتے ہیں۔ قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے 1946 میں مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا جب دورہ کیا۔ وہاں قائداعظمؒ کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو ’’پاکستان کی شہ رگ‘‘ قرار دیا۔

مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947 کو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاقِ پاکستان منظور کی مگر بھارت نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ اس پر کشمیریوں نے بھارتی افواج کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی جو اب تک جاری ہے اور جس میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان سے لے کر ان کی آنے والی نسلوں تک، جن میں آج مجاہد اول سردار عبدالقیوم کے صاحبزادے سردار عتیق آج تک حریت پسندوں کی نہ صرف بھرپور مدد کررہے ہیں بلکہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آواز کو بڑے پیمانے پر عالمی فورم پر اٹھانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

جب آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی حالیہ جدوجہد کو جاننے کےلیے سندھ زون کے صدر سردار عبدالرشید ڈار سے تفصیلی بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، وہ آزادی لے کر رہیں گے، انہیں اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ دبایا جاسکتا ہے؛ کشمیر کی آزادی اور الحاقِ پاکستان تک ہماری جدوجہد بدستور جاری رہے گی خواہ اس کے نتیجے میں ہمیں اپنے گود کے بچوں کی جانوں کا نذرانہ کیوں نہ دینا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کشمیر کی جنگ عقیدے اور آزادی کی جنگ ہے جس کےلیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’’5 فروری کو منائے جانے والے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر نہ صرف پورا پاکستان بلکہ پورا آزاد کشمیر بھی اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں سے مکمل طور پر اظہار یکجہتی کا اعلان کرتا ہے۔ ہماری جدوجہد میں شریک ہر کشمیری سے اپیل ہے کہ وہ ایک بار پھر مسلمان فاتح محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور سلطان صلاح الدین ایوبی بن جائے تاکہ کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ بنایا جاسکے۔‘‘

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close