بلاگ

سوفی کا جہاں اور ہے صوفی کا جہاں اور

ہم کون ہیں اور دنیا کیسے وجود میں آئی ہے؟ ہر انسان ان دو بنیادی سوالات کے بارے میں سوچتا ضرور ہے۔ پھر ان کے بارے میں وہ ایک نظریہ اختیار کرتا ہے۔ یہ نظریہ اسے تاریخ کا ایک تصور اور ماضی کا ایک شعور دیتا ہے۔ یہی نظریہ انسان کے حال کو تشکیل دیتا ہے  اور اس کے مستقبل کا بھی تعین کرتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہی انسان کا کل جہاں ہوتا ہے۔

1991ء میں ناروے کے ایک ادیب جوسٹائن گارڈر نے ’’سوفی کا جہاں‘‘ نامی ایک ناول لکھا۔ اس ناول کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ناول میں 15 سالہ بچی سوفی اور ایک ادھیڑ عمر فلسفی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ فلسفی، سوفی کو انسانی سوچ کی تاریخ اور ارتقاء کے بارے میں بتاتا ہے۔ آگے چل کر سوفی ان اسباق کو ایک پہیلی حل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے، مگر اسے احساس ہوجاتا ہے کہ حقیقت اس کے تصور سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

سوفی کے اس جہاں کا آغاز انہی بنیادی سوالوں سے ہوتا ہے کہ ہم کون ہیں اور دنیا کیسے وجود میں آئی ہے؟ پھر ایک طویل خط و کتابت کے نتیجے میں فلسفی انسانی سوچ کی 3 ہزار سالہ تاریخ کو کھنگالتا ہے۔ سوفی یہ سیکھتی ہے کہ زمانہ قدیم کے توہمات کے مقابلے میں انسان کیسے مظاہر فطرت کی عقلی وضاحت کرتا ہے۔ یونان کے فلسفی زمان و مکان کی ترکیب کے متعلق سوچتے ہیں۔

  • دمقراط کہتا ہے کہ دنیا کی ہر شے ناقابل تقسیم ایٹمی ذرات سے مل کر بنی ہے، مادہ بھی اور روح بھی اور انسان اپنے ارادے میں آزا د ہے۔
  • سقراط یہ جان پاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ یوں وہ جاننے والوں سے سوال کرتا ہے۔ پھر اُسے عوام کو گمراہ کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنادی جاتی ہے اور یوں وہ زہر پی کر امر ہوجاتا ہے۔
  • افلاطون مکالمات کی صورت میں رموز حکومت، تعلیم، اخلاقیات، جمہوریت، قوانین اور دوستی وغیرہ کے بارے میں اپنے اور دوسروں کے خیالات بیان کرتا ہے۔
  • ارسطو علوم کی درجہ بندی کرتا ہے اور منطق کے علم کی بنیاد رکھتا ہے۔
  • قنوطی خوشی کو روحانیت میں ڈھونڈتے ہیں۔
  • روایت پسند فطرت کے آفاقی قانون کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  • ایپیکیورس مسرت کے حصول کو زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔
  • فلاطینوس کے مطابق صرف ذات واحد کا وجود ہے، جس سے ذہن، عقل اور مادے کا اشراق ہوا ہے۔
  • ان سب نظریات کو جاننے کے بعد پھر سوفی عیسائیت کی تثلیث، اسلام کی وحدانیت اور ازمنہ وسطیٰ کے علم کلام کے بارے میں پڑھتی ہے۔ یہ عقیدے اور عقل کے درمیان کشمکش کا دور ہے۔ پھر نشاة ثانیہ کا آغاز ہوتا ہے۔ انسانی قدروں، آزاد مشاہدے اور تجربے پر زور دیا جاتا ہے۔ کوپرنیکس، کیپلر اور گلیلیو انسان کے تصور کائنات کی تصحیح کرتے ہیں۔ نیوٹن کشش ثقل کا قانون دریافت کرتا ہے۔ یوں سائنسی ایجادات اور دریافتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مشینیں بنتی ہیں، کارخانے لگتے ہیں، انسان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو کھوجنے نکل پڑتا ہے، وہ خدا کو چرچ میں ڈھونڈنے کے بجائے کائنات میں ڈھونڈتا ہے اور خدا سے اس کا واسطہ ذاتی نوعیت کا بن جاتا ہے۔ وہ استحصالی قوتوں سے لڑتا ہے اور ریاستی ستونوں کو انسانی بنیادوں پر استوار کرنے کی سعی کرتا ہے۔

    مفکرین کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے۔

    • ڈیکارٹ کی تشکیک پسندی اسے خود کے موجود ہونے کا یقین دلاتی ہے۔
    • بیکن کہتا ہے کہ علم طاقت ہے۔
    • لاک کے خیال میں علم صرف تجربے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پیدائش کے وقت انسان ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ اس کی سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔
    • ہیوم انسانی فطرت کے بارے میں غور کرتا ہے۔
    • برکلے صرف خدائی ذہن کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔
    • کانٹ حقیقت کی ماورائیت اور انسانی عقل کی حدود کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
    • ہیگل کے خیال میں دنیا تجدید عمل کا نتیجہ ہے۔ سوچ ارتقائی عمل سے گزرتی ہے۔
    • کرک گارڈ سچائی کو موضوعی سمجھتا ہے۔ اُس کے مطابق زندگی جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی مراحل سے گزرتی ہے۔
    • مارکس طبقاتی کشمکش کا حل ایک ایسے انقلاب میں دیکھتا ہے جو کام اور پیداوار کی منصفانہ تقسیم کرے۔
    • ڈارون کے خیال میں فطری انتخاب کی صورت میں انواع ارتقائی عمل سے گزرتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے ایسا ضروری ہوتا ہے۔ یہ اصول انسان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
    • فرائیڈ سمجھتا ہے کہ لاشعور کی قوتیں انسانی محرکات اور خواہشات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ سارتر فرد کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کا چناؤ خود کرے۔ یہ خیالات ایک آفاقی تہذیب کو جنم دیتے ہیں۔
    • سوفی کا جہاں تخیل، تجسس، تفکر اور تحقیق کا جہاں ہے۔ وہ سوال کرتی ہے، انسانیت کسے کہتے ہیں؟ اچھی زندگی کیا ہوتی ہے؟ وہ کسی واحد جواب کو حرف آخر ماننے کے بجائے مزید سوال کرنے اور غور و فکر کرتے رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ ایک بنیادی نکتہ سیکھ چکی ہے کہ جب ہم انسانی بنیادوں کے بارے میں سیکھتے ہیں تو ہم سب ایک جیسے ہوجاتے ہیں اور جب اس سے لاعلم رہتے ہیں تو ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔

      اب بات ہو صوفی کی جو نویں جماعت کا طالب علم ہے اور سوفی کا ہم عمر، اس نے اپنے نظریات درسی کتابوں اور اپنے ماحول سے اخذ کئے ہیں۔ وہ ان پر پختگی سے یقین رکھتا ہے۔ اس نے کبھی ان سے اختلاف کا سوچا تک نہیں۔ اس کے معاشرے میں سوال کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ جوابات سے لاد دیا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی کا انحصار انہی جوابات کو حفظ کرلینے اور اطاعت میں ہے۔ اس کا تجسس ایک دن مرجاتا ہے۔ وہ کسی نئی تحقیق کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ وہ جدید علوم کی تاویلات من پسند طریقے سے پیش کرتا ہے۔

      وہ سوچتا ہے کہ سائنس مذہب کی مرہون منت ہے۔ زمانہ جدید کی ایجادات اور دریافتیں نئی نہیں ہیں۔ وہ سائنس کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ وہ سائنس کی تاریخ، مقصد، طریقہ کار اور بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے سائنس کی نہیں، بلکہ سائنس کو اس کی ضرورت ہے۔ وہ مذہب کو سائنٹفک زاویے سے دیکھنے کے بجائے سائنس کو مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یوں وہ آزاد مشاہدے سے کوئی مفروضہ قائم نہیں کرسکتا اور غیر جانبدارانہ انداز میں تحقیق نہیں کرپاتا۔ وہ عقیدے سے ایسے چپکا رہتا ہے گویا خود اس کے بارے میں شک کا شکار ہو۔

      صوفی کی تاریخ اسے فاتح بنا کر پیش کرتی ہے۔ تاریخی واقعات قدم قدم پر اس کے نظریے کی تائید کرتے ہیں۔ ایسا ماحول دوسری قوموں سے خوف اور دوسرے عقیدوں سے تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ کمرہ جماعت میں جنگ کا ایک سماں بندھ جاتا ہے، وہ نصابی کتابوں سے اپنے ازلی دشمن اخذ کرتا ہے۔

      وہ سچ کو لیبارٹری یا لائبریری میں تلاش کرنے کے بجائے سلاطین کی فتوحات میں ڈھونڈتا ہے۔ وہ قلم اور کتاب سے زیادہ گولی اور بندوق میں رغبت رکھتا ہے۔ وہ خود کو اچھا ثابت کرنے کے لئے تاریخ کو مسخ کردیتا ہے۔ وہ تاریخ سے من پسند واقعات کو چنتا ہے، دوسرے واقعات یا تاریخوں کو سرے سے رد کردیتا ہے۔ یوں وہ خود کو اچھا اور دوسرے کو بُرا ہی سمجھتا ہے۔

      ایک ہی زمین پر موجود ہوتے ہوئے، سوفی اور صوفی کے جہاں کتنے مختلف ہیں۔ یہ بچے اپنی اپنی تہذیبوں کے امین ہیں۔ آگے جاکر یہی اپنے ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے باہمی معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں گے یا سازش اور بداعتمادی کی فضا قائم رہے گی؟ لیڈر شپ کا حق کس کے پاس ہوگا؟ دنیا سمٹ رہی ہے، جہاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ کوئی تہذیبوں کے تصادم کی بات کررہا ہے تو کوئی تاریخ کے خاتمے کا اعلان۔ ایک طرف شناختوں کا بحران ہے تو دوسری جانب ان کی تحلیل کا عمل، حالات کی سنگینی اور مستقبل کی متوقع کشمکش سے بہتر ہے کہ تاریخ کے تصور اور ماضی کے شعور کو جدید تقاضوں کے مطابق معقول بنیادوں پر از سر نو مرتب کیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close