بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کے شیعہ سنی بچے

سعودی ٹی وی پر نشر ہونے والے طنز و مزاح پر مبنی ایک ڈرامے نے سماجی رابطوں کی سائٹس پر ایک بڑی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

اس ڈرامے میں مذہبی رجحانات رکھنے والے شیعہ اور سنی خاندانوں کے بچے پیدائش کے وقت غلطی سے ہسپتال میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کئی برس بعد ہسپتال کو اپنی غلطی معلوم ہوتی ہے تو وہ ان بچوں جو اب جوان ہو چکے ہوتے ہیں اپنے خاندانوں سے ملواتے ہیں۔

جب لڑکوں کے والدین کو پتہ چلتا ہے کہ ان کا بچہ مخالف فرقے کے خاندان میں جوان ہوا ہے تو وہ اپنے بچے کے عقائد تبدیل کرنے اور ان پر یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ غلط عقائد کے مطابق زندگی گزارتے آئے ہیں۔

یہ کہانی متنازع طنز نگار ناصر القاسبی کی تحریر ہے۔ ڈرامے کے نشر ہونے سے قبل انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’لوگ اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔‘

اس ڈرامے کی شیعہ اور سنی دونوں عقائد کی پیروی کرنے والے لوگوں نے تعریف کی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ممالک بشمول سعودی عرب، عراق، لبنان اور اردن میں شیعہ اور سنی مسلمان آباد ہیں۔

سوشی بچے

اگرچہ عراق اور لبنان جہاں شیعہ بڑی تعداد میں آباد ہیں وہاں شیعہ سنی شادیاں کافی حد تک عام ہیں لیکن سعودی عرب میں شیعہ سنی شادیاں شاذونادر ہی ہوتی ہیں۔

شیعہ سنی جوڑوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو سوشی بچے کہا جاتا ہے اور یہ سعودی عرب میں ایک حساس موضوع ہے۔

عیرج ایمران (اصل نام مخفی رکھا جا رہا ہے) جو ایک سنی والد اور شیعہ ماں کی بیٹی ہیں

بتایا کہ ان کے والدین کی عراق میں 40 سال قبل شادی ہوئی تھی لیکن جب وہ واپس سعودی عرب آئے تو انھیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

عیرج کے بقول بچپن میں انھیں اپنی والدہ کے عقائد کو چھپانا پڑتا تھا کیونکہ اگر ان کے دوستوں کو معلوم ہوجاتا کہ ان کی والدہ شیعہ ہیں تو وہ ان سے بات چیت ختم کر دیتے۔

اس موضوع پر برطانوی فلم ساز السودانی نے’میں سوشی کیوں نہیں ہوسکتا‘ نامی ایک دستاویزی فلم بھی بنائی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ’میرا بنیادی مقصد ان تحفظات پر نظر ڈالنا تھا جو ایک فرقے میں دوسرے فرقے کے حوالے سے پائے جاتے ہیں اور پھر مفروضوں کو ختم کر کے دونوں میں مشترکہ چیزوں کو اجاگر کرنا تھا تاکہ جب انھیں معلوم ہو کہ ان میں کافی چیزیں مشترک ہیں تو وہ ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔‘

ان کے بقول اس حساس موضوع کو اجاگر کرنے کا فیصلہ انھوں نے مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک کی موجودہ صورتحال کے باعث کیا۔

السودانی کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو ان کے آباؤ اجداد کے بارے میں یاد دلوانے کی ضرورت تھی، تاکہ اس بات سے قطع نظر کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی، بس وہ ایک عام اور سادہ مسلمان بن سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close