بلاگ

لشکر جھنگوی سے بلوچ لبریشن آرمی تک!

رپورٹ: نوید حیدر

محققین کے مطابق انسانی تاریخ میں قدیم دیومالائی کردار "سیمسن” پہلا خودکش حملہ آور ہے، جس نے دشمن کو تباہ کرنے کے لئے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔ سیمسن کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے بھی رومن سلطنت کے خلاف خودکش حملوں کی داستانیں ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہٹلر پر بھی خودکش حملہ کیا گیا۔ اس جنگ میں جاپانی پائلٹوں کی جانب سے بھی خودکش حملوں کی کہانیاں موجود ہے۔ ماضیِ قریب میں سنہالی گوریلے بھی سری لنکا پر قابض برطانوی فوجیوں پر خودکش حملہ کرچکے ہیں۔ خودکش حملوں کی تکنیک کو جدید بنانے کا سہرا تامل قوم پرست تنظیم "ایل ٹی ٹی ای” کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے اس تکنیک کے ذریعے بھارت اور سری لنکا کی حکومتوں کی نیندیں حرام کر دی تھی۔ تامل قوم پرستوں نے 1991ء میں اسی تکنیک کے ذریعے بھارتی وزیرِاعظم راجیو گاندھی کو قتل کر دیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان میں پہلا خودکش حملہ 1995ء کو اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر ہوا، جبکہ تاریخ کے بعض صفحوں کے مطابق پاکستان میں پہلا خودکش حملہ 1974ء کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر کیا گیا۔ یہ حملہ بلوچ قوم پرست نوجوان مجید بلوچ کی جانب سے کیا گیا، تاہم حملہ ناکام ہوا اور مجید بلوچ خود اپنی جان سے گزر گیا۔

گذشتہ ہفتے 11 اگست 2018ء کو بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر استاد اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان بلوچ نے بارود سے بھری گاڑی کو سیندک پروجیکٹ کے چائنیز ملازمین کے بس سے ٹکرا دیا، جس سے دو چائنیز انجینرز زخمی ہوگئے۔ بلوچ لبریشن آرمی کیجانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ حملہ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے رکن ریحان بلوچ نامی نوجوان نے انجام دیا ہے۔ بعدازاں حملے سے قبل خودکش حملہ آور کا ریکارڈ کیا گیا ویڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر سامنے آیا۔ ریحان بلوچ نے انگریزی زبان میں چینی حکومت کو تنبہ کی ہے کہ بلوچستان میں جاری تمام منصوبوں کو فوری طور پر بند کر دیا جائے، کیونکہ ان منصوبوں سے بلوچ قوم کے وسائل کی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ مستقبل میں‌ تمام منصوبوں کو بلوچ قیادت کی مرضی و منشاء کے مطابق تشکیل دینے پر زور دیا گیا ہے، جبکہ ایسا نہ کرنے پر چینی انجینیئرز اور دیگر حکومتی اہلکاروں پر حملوں کو تیز کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

بلوچستان میں کئی دہائیوں سے بلوچوں کی جانب سے مزاحمتی تحریک جاری ہے، جس میں وقتاً فوقتاً سکیورٹی فورسز اور دیگر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہیں، لیکن یہ مزاحمت ریموٹ کنٹرول بم حملوں یا ٹارگٹ کلنگز کی تک محدود رہی ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں مہلک ہتھیاروں کے استعمال اور خودکش حملوں میں ہمیشہ مذہبی شدت پسند تنظیمیں لشکر جھنگوی، داعش یا طالبان ملوث رہی ہیں، جبکہ پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ چینی ملازمین پر خودکش حملہ کرنیکی ذمہ داری بلوچ آزادی پسند تنظیم یعنی بی ایل اے نے قبول کی ہے۔ دالبندین حملے سے جڑے کچھ اور عوامل بھی ہیں، جو اس خدشے میں مزید اضافہ کرتے ہیں کہ بلوچ مزاحمتی تنظیمیں بلوچستان اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کیلئے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔

اول تو یہ کہ یہ حملہ کسی اکیلے، مایوس شخص کا انفرادی عمل نہیں تھا بلکہ اس حملے کی پوری منصوبہ بندی بی ایل اے کے اس کارکن کے پورے خاندان کی جانب سے کی گئی، کیونکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور ریحان بلوچ کے والد اسلم بلوچ خود اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ نہ صرف بی ایل اے بلکہ دوسری آزادی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ نے بھی اس خودکش حملے کو سراہا ہے۔ اب تک یہ دیکھنا باقی ہے کہ بلوچ مزاحمت کار جو مذہبی شدت پسند کی بجائے قوم پرست ہیں، وہ مستقبل میں خودکش حملوں کے آپشن کو مزید استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر شاید وہ مذہبی شدت پسند تنظیموں لشکر جھنگوی، داعش، تحریک طالبان اور دیگر سے بھی کوئی تعلق قائم کر لیں، جو خود کش حملے کرنے میں ماہر ہیں، جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے ماضی میں بھی یہ الزامات سامنے آتے رہے ہیں کہ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں مذہبی شدت پسند تنظیموں کیساتھ یکجاء ہوکر کارروائیاں کرنے میں ملوث ہیں۔

بی ایل اے کا چینی انجنیئروں پر حملے کی سب سے اہم بات حملے کی جگہ بھی ہے۔ ضلع چاغی دوسرے علاقوں کے بنسبت پرامن رہا ہے۔ چینی تقریباً آٹھ سال سے سیندک پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے اور کچھ اطلاعات کے مطابق یہ منصوبہ اب تقریباً اپنے حتمی مراحل میں ہے، لیکن سی پیک کی صورت میں چین کے سب سے بڑے منصوبے کو آنے والے دنوں میں ابھی شروع ہونا ہے۔ اگر ریاست بلوچ آزادی پسند تنظیموں کیخلاف موثر کارروائی نہیں کرتی، تو آنے والے دنوں میں اس انتہا پسندانہ تحریک میں مزید شدت آسکتی ہے۔ اس سے قبل بلوچستان میں مذہبی شدت پسند تنظیموں کے حملے کو زیادہ مہلک سمجھا جاتا تھا، جبکہ مستقبل میں بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظیمیں بھی لشکر جھنگوی جیسی مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close