بلاگ

آج معروف ادیب اشفاق احمد کی سالگرہ ہے

اشفاق احمد22 اگست 1925ءکومکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔

وہ انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گۓ۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔

داستان گو اور لیل و نہار نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ءسے 1992ءتک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے،اجلے پھول، سفر مینا، پھلکاری اور سبحان افسانے کے نام سے شائع ہوئے۔

ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور 41 سال تک چلتا رہا۔

حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے۔ صوفی مزاج کے حامل اشفاق احمد 7ستمبر 2004ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

ایک سوال

اشفاق احمد لکھتے ہیں ایک سوال نے مجھے بہت پریشان کیا

سوال تھا:مومن اور مسلم میں کیا فرق ہے؟
بہت سے لوگوں سے پوچھا مگرکسی کے جواب سے تسلی نہ ہوئی
ایک دفعہ گاؤں سے گزر رہا تھا،دیکھا ک ایک بابا گنے کاٹ رہا ہے
نہ جانے کیوں دل میں خیال آیاکہ اِن سے یہ سوال پوچھ لوں۔
میں نے بابا کو سلام کیااور اجازت لے کر سوال پوچھ لیا۔
بابا جی تھوڑی دیر میری طرف دیکھتےرہے اور جواب دیا۔۔
مسلمان وہ ہے جو اللہ کو مانتا ہے۔
مومن وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے۔

عشق

مجھے بہت جستجو تھی کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی میں فرق جان سکوں،ایک دن ابا جی نے بتایاکہ۔۔۔۔
اشفاق،اپنی انا کو کسی ایک شخص کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے، اور اپنی انا کو سب کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔

عورت

آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی بات کریں، کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں اگر اِس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اِس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔
اِس کے ذہن کے اندر اپنی منطق ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اِس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہےاور وہ اِسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔
اس لیے وہ کسی عقل و دانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی ۔
اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے۔

محبت

میرا پہلا بچہ میری گود میں تھا۔
میں ایک باغ میں بیٹھا تھا۔
اور مالی کام کر رہے تھے۔
ایک مالی میرے پاس آیا اور کہنے لگا” ماشا اللہ بہت پیارا بچہ ہے۔اللہ اِس کی عمر دراز کرے”۔
میں نے اُس سے پوچھا ،” تمھارے کتنے بچے ہیں؟” ۔
وہ کہنے لگا،” میرے آٹھ بچے ہیں”۔
جب اُس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا ،تو میں نے کہا کہ ” اللہ اُن کو سلامت رکھے ۔لیکن میں اپنی محبت کو آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں”۔
یہ سُن کر مالی مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا۔
صاحب جی! ” محبت تقسیم نہیں کیا کرتے ۔۔۔۔۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں “۔

خوشی

خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو دو چار آنے دے دئیے۔
خوشی تب ملتی ہے جب آپ اپنے خوشیوں کے وقت سے وقت نکال کر انہیں دیتے ہیں جو دُکھی ہوتے ہیں،کوئی چیز آپ کو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو خوشی آپ کو روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close