بلاگ

اقبالؒ حقیقتاً بلند اقبال… مگر کیوں؟

’اقبالؒ میری پسند اور توجہ کا مرکز اس لیے ہیں کہ وہ بلندنظری، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں، ایک عقیدۂ دعوت اور پیغام رکھتے ہیں۔ وہ مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقِد اور باغی ہیں۔ وہ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گذشتہ کےلیے سب سے زیادہ فکرمند، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں۔‘‘ (سید ابوالحسن علی ندوی، نقوشِ اقبالؒ)

بیسویں صدی کا ابتدائی دور مسلمانوں کا بحیثیت قوم، پستی و محرومی کا زمانہ تھا۔ مسلم دورِحکومت کے خاتمے کے بعد ہندوؤں اور انگریزوں کی مغلوب مسلمان قوم کو نبض شناس حکیم اور مصلح کی ضرورت تھی۔ ایسے میں علامہ اقبالؒ ملتِ اسلامیہ کے افق پر نمایاں ترین شناخت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ جلد ہی اپنی قدآور شخصیت اور لازوال شاعری کے ساتھ مینارۂ نور بنتے ہیں۔ آفاقی روشنی کے ذریعے انسانیت کے اس پژمردہ گروہ کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر نشانِ منزل دکھاتے ہیں۔ ساتھ ہی راستے میں حائل دیدہ و نادیدہ رکاوٹوں سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ اقبالؒ اپنی شاعری کا مقصد مسلمانوں میں عمل کا وہ جذبہ و ولولہ ڈالنا بتاتے ہیں جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔

اس کی نفرت بھی عمیق، اس کی محبت بھی عمیق
قہر بھی اس کا ہے اللّٰہ کے بندوں پر شفیق
مثلِ خورشیدِ سحر، فکر کی تابانی میں!
بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق
(ضربِ کلیم)

امت کےلیے اسی دل سوزی کے باعث اقبالؒ وہ پسندیدہ فرد ہیں کہ جن کی شخصیت و کلام پر دو ہزار سے زائد کتب لکھی جا چکی ہیں۔ اقبالؒ کی نابغۂ روزگار شخصیت کی تعمیر کے عناصر کی تلاش کی جائے تو وہ پانچ ہیں۔ یہ وہ تخلیقی عناصر ہیں جنہوں نے اقبالؒ کو حقیقتاً بلند اقبالؒ بنا کر زندۂ جاوید بنا دیا۔

آپ کی تعمیرِشخصیت کا اہم ترین عنصر “ایمان و یقین” ہے۔ یہ ایمان و یقین عقیدہ و محبت کا ایسا حسین امتزاج ہے کہ جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ اسلام اور اس کے آفاقی پیغام کے سچے علم بردار نظر آتے ہیں۔ نبی کریمﷺ سے آپ کی محبت و عقیدت انتہا درجے پر پہنچی ہوئی ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی: اقبالؒ پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں، جتنی ایک بڑی شخصیتﷺ کی ہے۔ آپ کے مطابق اسلام ہی انسانیت کی کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔ اور نبی کریمﷺ انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔

وہ دانائےسُبل، ختم الرّسل، مولائےکُل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا!

دنیا آپ کے ظاہری حلیے کو دیکھ کر آپ کو انتہائی جدید خیال کرتی ہے۔ مگر درحقیقت آپ نہایت سادہ منش عاشقِ رسولﷺ ہیں۔ ایک مرتبہ پنجاب کے ایک رئیس نے قانونی مشورے کی غرض سے آپ کو چند افراد کے ہمراہ مدعو کیا۔ وہ جب رات کو سونے کےلیے کمرے میں گئے تو وہاں نرم و گداز اور پُرتعیُش انتظامات دیکھ کر حبیبِ خداﷺ کا ٹاٹ کا بستر یاد کر کے زاروقطار روتے رہے۔ اور اس قیمتی بستر پر سونا پسند نہ کیا۔

اقبالؒ کی شخصیت کا دوسرا اہم عنصر قرآن پاک ہے۔ اقبالؒ چوں کہ روایتی مسلمان نہیں، اس لیے قرآن سے تعلق اور مطالعے کی لگن عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

علامہ اقبالؒ کا معمول تھا کہ ہر روز فجر کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے، ایک مرتبہ آپ کے والد صاحب نے اس سے متعلق دریافت فرمایا کہ “کیا کر رہے ہو؟ فرمایا: قرآن پڑھ رہا ہوں۔۔۔۔کچھ دن تک سوال و جواب کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔۔۔آخر ایک دن اقبالؒ نے اس سوال کی وجہ معلوم کرنا چاہی تو والد نے پوچھا کہ قرآن کو سمجھتے بھی ہو؟ قرآن وہی سمجھ سکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو۔ اور اس کی وضاحت بھی فرمائی کہ قرآن پڑھنے والا جتنا قرآن کے رنگ میں رنگتا چلا جائے گا، قرآن اس پر نازل ہوتا رہے گا۔” (اقبالؒ کے حضور)

اس حقیقت کا اظہار یوں فرماتے ہیں:

تِرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشّاف!
(بالِ جبریل)

پھر اقبالؒ نے تمام زندگی قرآن پاک میں غوروفکر اور تدبر کو حرزِجاں بنائے رکھا۔ یہ ان کی محبوب کتاب تھی کہ یہاں سے نئے انکشافات، نیا یقین اور فکر کی نئی قوتیں اور جہتیں نصیب ہوتی رہیں۔

ایک مرتبہ کچھ طلباء فلسفہ کے کچھ سوالات آپ کے پاس لائے۔ وہ منتظر تھے کہ آپ بڑی بڑی الماریوں سے فلسفہ کی ضخیم کتب نکلوا کر ان کے جوابات دیں گے۔ مگر وہ حیرت زدہ رہ گئے، جب اقبالؒ جوابات کی غرض سے ان کے سامنے قرآن کھول کر بیٹھ گئے۔

اقبالؒ کی شخصیت کے تعمیر کا تیسرا اہم عنصر “عرفانِ نفس” ہے یعنی اپنے آپ کو پہچاننا، خودی۔

من عرفہ نفسہٗ فقد عرفہ ربُّہُ
جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔

اقبالؒ نے اس قرآنی رہنمائی میں اپنی شخصیت کو پہچانا۔ اپنی صلاحیتوں کا درست اندازہ کیا اور ان کو صحیح مقام یعنی خوابیدہ قوم میں بیداری کی روح پھونکنے کےلیے استعمال کیا۔

چوتھی چیز جو اقبالؒ کی تعمیرِشخصیت میں اہم ہے وہ آپ کی “نالۂ نیم شبی” ہے۔ اگرچہ آپ مطالعے اور درس وتدریس کے شوقین تھے۔ اس کے باوجود آپ کی فکر کو قوتِ تاثیر نصیب ہونے میں آپ کی آہِ سحرگاہی کا ہاتھ ہے۔ رات کے آخری پہر، میٹھی نیند سے بیدار ہو کر اپنے رب کے سامنے گڑگڑانا آپ کو نئی قوتیں عطا کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اپنی سحرگاہی قیمتی سرمائے کی مانند عزیز تھی۔

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحرگاہی
(بالِ جبریل)

یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے اقبالؒ کے عقیدہ و ایمان کو توانائی بخش کر انہیں بلندیِ اقبالؒ عطا کی۔

جانتے ہیں، اس ساری عبقریت کی بنیاد میں کیا راز پوشیدہ ہے؟

بچپن کی بنیادی تربیت اور گھر کا خالص اسلامی ماحول۔ اقبالؒ کی یہ خوش نصیبی تھی کہ آپ ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والدین نیک پرہیزگار اور معاملہ فہم تھے۔ والدین نے اگرچہ کہیں تعلیم نہ پائی تھی۔ مگر علومِ دینیہ اور فلسفہ سے دلی لگاؤ تھا۔ بقول استادِ اقبالؒ، میرحسن، اقبالؒ کے والد ان پڑھ فلسفی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔

تعلیم کا آغاز چار برس کی عمر میں سب سے پہلے قرآن پاک کی تعلیم سے ہوا۔ بڑے ہوئے تو قابل اساتذہ سے ادب کی کتب گلستان، بوستان، سکندرنامہ، اور تصانیفِ ظہوری کے دروس لینے شروع کیے۔ ساتھ ہی فارسی و عربی کی تعلیم، مشرقی حکمت، تصوف اور فلسفہ کے رموز (اسباق) بہترین انداز سے ذہن نشین کرائے گئے۔ نیز ان علوم کے ساتھ تلاوتِ قرآن اور نمازوں کی اوقات کے ساتھ ادائیگی اور حُسنِ اخلاق۔۔۔ یہ صفات گھر ہی کی تربیت کے باعث آپ کے اندر پروان چڑھیں۔

اقبالؒ کے والدِماجد نے ایک دن آپ سے کہا کہ میں نے تمھارے پڑھانے لکھانے میں جو محنت کی ہے، میں تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں۔ لائق بیٹے نے بڑے اشتیاق سے پوچھا وہ کیا؟۔۔۔ فرمایا: “بیٹے، میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا۔”

دنیا جانتی ہے کہ سعادت مند بیٹے نے باپ سے جو عہد کیا تھا، اسے کس حسن و خوبی سے پورا کیا۔

اقبالؒ، بچپن کی تربیت کے ایک اور دل گداز واقعے کو “رموزِ بےخودی” میں منظوم بیان کرتے ہیں۔ اس کا مختصر ترجمہ کچھ یوں ہے:

ایک مرتبہ دروازے پر سائل آیا اور طلبِ خیرات کےلیے اڑ گیا۔ نو عمر اقبالؒ کو بھی ضد آ گئی۔ آپ نے اس فقیر پر سخت غصہ کیا۔ یہاں تک کہ اس غریب کو پِیٹ ہی ڈالا۔ اتنے میں والدِ محترم آئے اور اس بے رحمی پر زاروقطار رو دیے۔ کہنے لگے، “روزِ قیامت، جب حضورِاکرمﷺ کے گِرد امت جمع ہوگی۔ یہ مظلوم سائل فریادی ہوگا۔ حضورﷺ مجھ سے دریافت فرمائیں گے : “ایک بندۂ مسلم تیری فرزندی و نگرانی میں دیا گیا تو، تُو اس ایک آسان کام کو نہ کر سکا! اس مٹی کے ڈھیر کو انسان نہ بنا سکا!”

جواب دہی کا یہ احساس ہم میں کتنا ہے؟

آج مغربی اور غیرمسلم تہذیب کے اثرات نے ابتدائی عمر کی اس تربیت اور آدابِ فرزندی کو ہمارے لیے اجنبی بنا دیا ہے۔ معاشرے میں کتنے گھرانوں میں یہ نہیں تو اس جیسا ہی اندازِتربیت موجود ہے؟

علامہ اقبالؒ نے والدین اور اساتذہ سے ملی ہوئی تربیت کو حرزِجاں بنایا۔ عام شعراء کے مقام سے بلند ہو کر اسلام کے داعیانہ مشن کے ساتھ اصلاحِ ملت کے فریضے کی ادائیگی کےلیے تاحیات کمربستہ رہے۔

علامہ اقبالؒ کے خیال میں امت کے گلستان کی شادابی اس کے پھولوں یعنی نوجوانوں کے دم سے ہی ہے۔ وہ اپنے کلام میں جابجا امت کے نوجوانوں کو تعمیرِسیرت کے ذریعے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

اگرچہ آج کے دور کا زوال اقبالؒ کے زمانے سے کہیں زیادہ ہے۔ امتِ مسلمہ کو اپنے فکری اور نظریاتی ورثے سے بے دخل کرانے کےلیے تمام لادین قوتیں ہر محاذ پر فعال ہیں۔ مکتب، مسجد، معاشرہ۔۔۔ہر محاذ تعمیر سے زیادہ تخریب کےلیے سرگرم ہیں۔ دنیا کی کمزور قوتیں خصوصا امتِ مسلمہ، مغرب اور اس کی معاون قوتوں کے ہاتھوں آگ اور خون کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہی ہیں۔ اقبالؒ اپنے پیروکاروں سے اپنی ہی طرح مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کی کرنوں کے منتظر ہیں:

نہیں ہے ناامید اقبالؒ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امید، مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
(بالِ جبریل)

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close