بلاگ

پھر وہی مندر، مسجد کی سیاست

سنہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد وہ گاندھی فیملی کے پہلے رکن ہیں جنھوں نے ایودھیا کا دورہ کیا ہے۔

ہنومان گڑھی مندر بابری مسجد کے متنازع مقام سے محض ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ بابری مسجد کے مقام پر ایک عارضی رام مندر بنا ہوا ہے۔ راہول گاندھی وہاں نہیں گئے۔ ایودھیا کے بعد راہول کچھوچھا کی مشہور درگاہ میں بھی حاضری دینے والے تھے۔

اتر پردیش میں آئندہ برس کے اوائل میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات انتہائی اہم تصور کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہیں سے یہ طے ہو گا کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں کس کی جیت ہوگی۔

ریاست میں اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی اقتدار میں ہے۔ سنہ 2012 سے جب سے وہ اقتدار میں آئی ہے تب سے ریاست میں کہیں نہ کہیں ہندو مسلم کشیدگی برقرار رہی ہے۔ مظفر نگر سمیت کئی بڑے فسادات بھی ہو چکے ہیں۔

اکھلیش یادو کی حکومت نے اس پالیسی کے تحت کشیدگی ختم کرنے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی کہ ریاست کے 20 فی صد مسلم خوفزدہ ہوکر ان کی پارٹی کی حمایت کے لیے مجبور ہو جائیں گے لیکن مسلمانوں کی اکثریت حکمراں جماعت سے ناراض نظر آتی ہے۔ دوسری جانب شمالی انڈیا میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی حمایت یافتہ ہندو تنظیموں کی پر تشدد گئو رکشا تحریک نے دلتوں کو نہ صرف بی جے پی سےدور کردیا ہے بلکہ اب سیاسی سطح پر مسلمانوں اور دلتوں کا ایک اتحاد بنتا ہو نظر آ رہا ہے۔ اتر پردیش میں دونوں کی اجتماعی آبادی 40 فیصد ہے۔ ریاست میں حکومتیں 30 فیصد کی حمایت سے بنتی رہی ہیں۔

اتر پردیش میں آئندہ برس کے اوائل میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات انتہائی اہم تصور کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہیں سے یہ طے ہو گا کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں کس کی جیت ہوگی۔

ریاست میں اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی اقتدار میں ہے۔ سنہ 2012 سے جب سے وہ اقتدار میں آئی ہے تب سے ریاست میں کہیں نہ کہیں ہندو مسلم کشیدگی برقرار رہی ہے۔ مظفر نگر سمیت کئی بڑے فسادات بھی ہو چکے ہیں۔

اکھلیش یادو کی حکومت نے اس پالیسی کے تحت کشیدگی ختم کرنے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی کہ ریاست کے 20 فی صد مسلم خوفزدہ ہوکر ان کی پارٹی کی حمایت کے لیے مجبور ہو جائیں گے لیکن مسلمانوں کی اکثریت حکمراں جماعت سے ناراض نظر آتی ہے۔ دوسری جانب شمالی انڈیا میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی حمایت یافتہ ہندو تنظیموں کی پر تشدد گئو رکشا تحریک نے دلتوں کو نہ صرف بی جے پی سےدور کردیا ہے بلکہ اب سیاسی سطح پر مسلمانوں اور دلتوں کا ایک اتحاد بنتا ہو نظر آ رہا ہے۔ اتر پردیش میں دونوں کی اجتماعی آبادی 40 فیصد ہے۔ ریاست میں حکومتیں 30 فیصد کی حمایت سے بنتی رہی ہیں۔

اتر پردیش کےانتخابات کانگریس کے مستقبل کے لیے کلیدی اہمیت کےحامل ہیں۔ راہول گاندھی نے ایودھیا کے ایک مندر سے اپنی انتحابی یاترا کا جو آغاز کیا ہے اسے بہت سےمبصرین ’نرم ہندوئیت‎‘ سےتعبیر کر رہے ہیں۔ بھارت میں بی جے پی سخت گیر اور نرم ہندوئیت دونوں کا تجربہ کر چکی ہے۔ اور بالاآخر اسے بھی ترقی اور بہتر نظام حکومت کے ایجنڈے کا ہی سہارا لینا پڑا ہے۔

یہ بات کانگریس اور تمام دوسری جماعتوں کی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ عوام مذہب کی سیاست سےتنگ آ چکے ہیں اور سمبل ازم سے ملک کا مستقبل نہیں بدلنے والا ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی کے ساتھ اتر پردیش ملک کی ان چند ریاستوں میں شامل ہے جو ترقی میں سب سے پیچھے رہ گئی ہیں۔

کانگریس کےلیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ ووٹ کے لیے مذہبی علامتوں کا استعمال نہ کرے۔ ملکوں کا مستقبل اور تقدیر مذہب سےنہیں جامع پروگراموں منصوبوں اور بہتر نظام حکومت سے بدلتی ہے۔ مندوں اور درگاہوں کا رخ کرنے کے بجائے راہول گاندھی لوگوں کو یہ بتائیں کہ وہ جس کانگریس کی مہم چلا رہے ہیں وہ اس کانگریس سے کس طرح مختلف اور بہتر ہے جسے عوام نے مستر کر دیا ہے۔ اگر کانگریس اپنی پرانی روش پر قائم رہی تو پھر اسے حکومت نہیں عبادت پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close