بلاگ

کیا لیبیا میں ایک نیا قذافی سامنے آرہا ہے؟

تحریر: سید رحیم نعمتی

سات سال پہلے انہی دنوں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کے مخالفین فوجی اتحاد نیٹو کی مدد اور پشت پناہی سے مغرب کی جانب پیشقدمی کر رہے تھے اور ان کا صرف ایک مقصد تھا؛ طرابلس اور سرت کو فتح کرنا۔ طرابلس معمر قذافی کی سیاسی طاقت کا مرکز تھا جبکہ سرت اس کے قبیلے کی رہائشگاہ تھی۔ ان دونوں شہروں پر قبضہ کرنے سے معمر قذافی مکمل طور پر شکست کا شکار ہوسکتے تھے، کیونکہ ان کا سیاسی مرکز بھی ہاتھ سے نکل جاتا اور ان کی آخری امید یعنی اپنے قبیلے کی حمایت بھی ختم ہو جاتی اور یوں ان کا اقتدار مکمل طور پر ختم ہو جاتا۔ آخرکار ایسا ہی ہوا اور ان دونوں شہروں پر حکومت مخالف گروہوں کے قبضے کے بعد معمر قذافی کی 42 سالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ معمر قذافی کی آمرانہ حکومت کا اختتام لیبیائی عوام کیلئے اچھی خوشخبری ثابت ہوسکتی تھی، لیکن اب سات برس گزر جانے کے بعد لیبیا کی عوام نہ صرف اپنے مطالبات تک نہیں پہنچ پائے بلکہ ایک نئے سیاسی نظام کے منتظر ہیں۔ یہ نیا سیاسی نظام بھی معمر قذافی کی طرح طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرنے کے درپے ہے اور اس مقصد کیلئے عوامی طاقت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتا۔

معمر قذافی کی سرنگونی ان دنوں عرب دنیا میں برپا ہونے والے سیاسی طوفان کی ایک بڑی علامت تھی، جسے عرب اسپرنگ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ سیاسی طوفان تیونس میں زین العابدین بن علی کی سرنگونی سے شروع ہوا اور اس کے بعد مصر کے صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے نیچے گراتے ہوئے لیبیا میں معمر قذافی کی سرنگونی کے ذریعے اپنے عروج تک پہنچا۔ لیبیا میں تیونس اور مصر کے برخلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ بہت جلد مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگیا۔ اس جدوجہد میں شامل تمام مسلح گروہوں نے 1969ء میں معمر قذافی کی فوجی بغاوت سے پہلے والا پرچم اپنے ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔ اگرچہ یہ تمام گروہ معمر قذافی کی فوج کے خلاف برسرپیکار تھے، لیکن ہر گروہ کی ترجیحات اور اہداف مختلف تھے۔ معمر قذافی حکومت کی سرنگونی وہ واحد ہدف تھا جس پر ان تمام گروہوں کا اتفاق نظر پایا جاتا تھا۔ مسئلہ صرف ان گروہوں کے درمیان اختلاف کا نہیں تھا بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہ تمام گروہ مسلح تھے جبکہ ملک میں کوئی ایسی بالاتر طاقت بھی نہیں تھی، جو ان گروہوں کو ہتھیار پھینکنے پر تیار کرسکتی۔ لہذا لیبیا میں معمر قذافی کی سرنگونی کے کچھ ہی دیر بعد شدید خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔

معمر قذافی کی سرنگونی کے 9 ماہ بعد ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے، جس کے نتیجے میں قومی پارلیمنٹ یا "الموتمر الوطنی العام” تشکیل پائی۔ اس میں 200 سیٹیں تھیں۔ مختلف شدت پسند سلفی گروہوں کی موجودگی اور قبائلی اور قومی اختلافات کے باعث یہ پارلیمنٹ مقررہ مدت میں اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کرسکی، جس کے باعث 2014ء میں ایک نئی پارلیمنٹ تشکیل دی گئی، جس کا نام "ایوان نمائندگان” رکھا گیا۔ اس دوران طرابلس اور بن غازی میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ ابھی اسے تشکیل پائے تین ماہ ہی گزرے تھے کہ لیبیا کی سپریم کورٹ نے اسے توڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شدت پسند گروہ فجر سے مربوط ایسے اراکین جو اس نئی پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ پائے تھے، انہوں نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔ ایوان نمائندگان کے اراکین نے سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ سلفی گروہوں نے طرابلس میں ایک نئی پارلیمنٹ تشکیل دے دی، جس کا نام "جدید قومی فورم” رکھا گیا۔ یوں لیبیا کی حاکمیت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور ایک مضبوط حکومت برسراقتدار آنے کی بجائے عملی طور پر ملک میں دو حکومتیں ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوگئیں۔

طبرق میں ایک پارلیمنٹ اور طرابلس میں اس کے مقابلے میں دوسری پارلیمنٹ کی موجودگی نے ایک پرانے فوجی آمر کو میدان میں اترنے کا موقع فراہم کر دیا۔ خلیفہ بلقاسم حفتر 1969ء کی فوجی بغاوت میں معمر قذافی کا ساتھی تھا۔ اس فوجی بغاوت کے بعد حفتر انقلاب کی مرکز کونسل کا رکن بھی تھا۔ وہ 1973ء میں اسرائیل کے خلاف مشہور "جنگ رمضان” میں لیبیا کی فوج کا سپہ سالار بھی رہ چکا ہے۔ اس کے بعد چاڈ اور لیبیا کے درمیان جنگ میں بھی اپنی مسلح افواج کی کمان کرچکا ہے۔ اس جنگ میں وہ چاڈ کی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اس کے بعد یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ سی آئی اے نے اسے چاڈ سے آزاد کروایا اور لیبیا میں عرب اسپرنگ رونما ہونے تک وہ سی آئی اے کیلئے جاسوسی کے فرائض انجام دیتا رہا۔ طبرق پارلیمنٹ نے اس ماضی کی بدولت اسے اپنی طرف سے لیبیا کی مسلح افواج کا سپہ سالار بنا دیا جبکہ طرابلس میں براجمان پارلیمنٹ نے بھی فائز السراج کو لیبیا کے وزیراعظم کے طور پر متعارف کروا رکھا ہے۔ خلیفہ حفتر نے انتہائی خاموشی سے ملک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا اور قدرتی ذخائر سے مالا مال جنوبی علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ ابھی وہ خود کو اس قدر طاقتور محسوس کر رہے ہیں کہ کھلم کھلا طرابلس پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے خلاف جنگ کا الٹی میٹم صادر کرچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا لیبیا میں دوبارہ ایک نیا معمر قذافی برسراقتدار آجائے گا۔؟

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close