بلاگ

سندھ کا سونا،خیرپوری کھجور

اسی طرح کی ایک پیداوار کھجور کی ہے جس کے ذریعے کثیر زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ پاکستان کھجوریں پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اور سب سے زیادہ کھجوریں صوبہ سندھ کے علاقے خیرپور میں کاشت کی جاتی ہیں۔پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار 0.54 ملین ٹن ہے جس میں سے 0.28 ملین ٹن صوبہ سندھ میں کاشت کی جاتی ہے ۔ خیرپور میں کھجوروں کی اعلیٰ قسم کاشت کی جاتی ہے جسے ” اصیل “ کہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کھجوروں کو پکا کر” چھوہارے“ بنائے جاتے ہیں۔ خیرپور کی زیادہ تر کھجوریں سری لنکا، بنگلہ دیش اور انڈیا کو برآمد کی جاتی ہیں۔ اپنے دلکش سنہری رنگ کی وجہ سے ان کھجوروں کو سندھ کا سونا کہا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہون گے کہ یہ سونا خون اور پسینے کے بعد کندن بنتا ہے۔
خیرپور کے زیادہ تر لوگ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور ان کا ذریعہ¿ معاش کھجوروں کی فصل کی کٹائی سے منسلک ہے۔ جیسے ہی فصل کی کٹائی کا موسم قریب آتا ہے ،پاکستان کے دوسرے صوبوں مثلاً پنجاب، بلوچستان اور خیرپور سندھ کے قریبی علاقوں سے بھی لوگ خیرپور آ کر آباد ہو جاتے ہیں۔
فصل کی کٹائی میں بوڑھی خواتین بھی مَردوں کے شابہ بشانہ ان کا ہاتھ بٹاتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ معاشرتی و ثقافتی روایات و اقدار کے پیشِ نظر نوجوان خواتین کو کھلے عام کھیتوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کے باوجود وہ گھر بیٹھ کر ہی گھر کی روزی روٹی چلانے میں مرد حضرات کی پوری مدد کرتی ہیں۔ اور کھجور کے پتوں کو کام میں لاتے ہوئے ٹوکریاں، دستی پنکھے اور دریاں بناتی ہیں۔اس دوران ان کے ہاتھ بھی زخمی ہو جاتے ہیں۔ لیکن پیٹ پوجا کی خاطر وہ اپنے ہاتھوں کے زخمی ہونے کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں۔ اور یہی ہاتھ سے بنی دریاں اور ٹوکریاں ہی کھجوریں سکھانے اور سکھانے کے بعد انہیں رکھنے کے کام آتی ہیں۔
بیشتر خواتین کے مرد حضرات کا ذریعہ¿ معاش صرف فصل کی کٹائی سے ہی منسلک ہے اس کے علاوہ وہ سال کے دیگر مہینوں میں کوئی اورکام نہیں کرتے اور خواتین ہی اپنی جمع پونجی سے سال کے باقی ماندہ مہینوں میں اپنے گھر کا خرچہ چلاتی ہیں ۔اسی لئے انہیں معاشرتی پابندیوں کے باوجود گھر بیٹھ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن انہیں ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا۔ جو بیوپاری ان خواتین سے یہ اشیاءخریدتے ہیں وہ ان خواتین کو کم معاوضہ دیتے ہیں جبکہ وہی اشیاءخود شہر میں دوگنی قیمت پر بیچتے ہیں۔
مرد کھجوروں کو درختوں سے اتارتے ہیں جبکہ خواتین انہیں ڈالیوں سے جدا کرتی ہیں۔ مَردوں کے درمیان بھی مختلف کاموں کو بانٹا جاتا ہے اور ان کے کام اور محنت کو مدنظر رکھتے ہوئے اجرت دی جاتی ہے۔ ہر کام کی اجرت مختلف ہوتی ہے مثلاً جو لوگ اپنے کندھوں پر کھجوریں لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں انہیں 350 روپے روزانہ ، اِسی طرح جو لوگ کھجوروں کو بڑے بڑے کڑاہوں میں پکاتے ہیں اور کچن میں کام کرتےااور” چھوہارے“ بناتے ہیں انہیں روزانہ 500 اور درختوں پر چڑھ کر کھجوریں اتارنے والوں کو سب سے زیادہ اجرت یعنی 700 روپے روزانہ کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسا کام سر انجام دیتے ہیں جس میں گر کر چوٹ لگنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ صنفِ نازک کو سب سے کم اجرت دی جاتی ہے۔

کھجوریں درختوں سے اتار کر مارکیٹ بھیجنے تک انہیں کئی مرحلوں سے گزارا جاتا ہے اور یہ تمام مراحل بغیر کسی آٹو میٹک مشینری کے ہاتھ سے مکمل کئے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے کھجوروں کو درختوں سے ڈنڈیوں یا شاخوں سمیت اتارا جاتا ہے۔ پھر انہیں ڈنڈیوں سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ ڈنڈیوں سے علیحدہ کرنے کے بعد 85% کھجوروں کو بڑے بڑے کڑاہوں میں پیلا رنگ ڈال کر بیس منٹ تک پکایا جاتا ہے اور ان کے” چھوہارے“ بنائے جاتے ہیں۔ پھر انہیں ہاتھ سے بنی دریوں پر ایک ہفتے تک سکھایا جاتا ہے۔ اِس کے بعد انہیں بوریوں میں بند کر کے ٹریکٹروں پر لاد کر بیچنے کیلئے شہر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ٹریکٹر ہی وہ واحد مشینری ہے جو اِس سارے عمل میں استعمال میں لائی جاتی ہے۔
اور ان تمام مراحل میں کے دوران اگر کوئی مزدور درخت سے گر کر زخمی ہو جاتا ہے یا کچن میں کام کرتے ہوئے آگ سے جھلس جاتا ہے تو اس کیلئے ابتدائی طبی امداد کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔ فصل کی کٹائی مئی جون جیسے گرم مہینوں میں کی جاتی ہے جب درجہ¿ حرارت 48 سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے اور مزدوروں کو اسی سخت گرمی کے موسم میں ہی کام کرنا پڑتا ہے۔
( راحیلہ خالد نے بہاو¿الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے انگلش لینگوچ اینڈ لٹریچرمیں ماسٹر کیاہے ۔وہ انگریزی اور اردو میں یکساں روانی سے مضامین و کہانیاں اور فیچرز لکھتی ہیں)

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close