بلاگ

امت کا غلبہ اور مولانا نعمانی کا فکری نقطہ نظر

آپ کے والد مولانا منظور احمد نعمانیؒ برصغیر کے ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی اصلاح میں غیرمعمولی خدمات سرانجام دیں۔مولانا خلیل الرحمن سجاد احمد نعمانی اپنے والدکی طرح امت کی اصلاح وفکر اور امت کے مختلف طبقوں کے باہمی اتحاد واتفاق کے لیے عرصہ دراز سے جدوجہد کررہے ہیں۔اقوام متحدہ،امریکی کانگریس سمیت دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور بڑی بڑی بین الاقوامی کانفرنسوں میں آپ نے اسلام کا پیغام پہنچانے کا اعزاز حاصل کیا۔آپ نہ صرف برصغیر کے جلیل القدر علماءمولانا ابوالحسن علی ندویؒ اورشیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ ایسے بزرگوں کے تربیت یافتہ ہیں بلکہ حرمین شریفین بالخصوص مدینہ منورہ کے مشائخ عظام سے بھی سند یافتہ ہیں۔شاہ فیصل کے دور میں مدینہ یونیورسٹی پڑھنے آئے اور 9 سال تک شیخ ابن باز اور شیخ حمادایسے بڑے بڑے علماء کرام سے فیض حاصل کیا۔شیخ ابن باز ان دنوں سعودی عرب کے مفتی اعظم اور مدینہ یونیورسٹی کے رئیس تھے ،شیخ حماد مدینہ منورہ کے محدث اعظم تھے۔ آپ ان دونوں بزرگوں کے چہیتے شاگرد تھے۔ شیخ حمادکو تبلیغی جماعت کے منہج کے بارے شرح صدر نہ تھی اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے بارے بھی رائے زیادہ اچھی نہ تھی ۔مولانا سجادنعمانی کی محبت کا شیخ حماد پر اتنا اثر ہوا کہ وہ ازخود شیخ الحدیث مولانا زکریا کے پاس سند حدیث لینے کے لیے گئے اور جماعت کے منہج سے بھی مطمئن ہوئے بلکہ جماعت کے ساتھ بھی نکلے۔ 

 

مولاناسجادنعمانی چند دن پہلے عمرے کی غرض سے مدینہ منورہ تشریف لائے ہوئے تھے۔مولانا کی آمد سے فائدہ اٹھانے کے لیے مدینہ یونیورسٹی کے پاکستانی اور انڈین طلبہ نے ایک پروگرام ترتیب دیا۔پروگرام کی ترتیب میں مولانامنہاج انور،ڈاکٹرعلاو¿الدین،بھائی مطیع الرحمن،سمیع الرحمن ،فاروق بادشاہ ، عدنا ن گل اور دیگر ساتھیوں نے بھرپورجدوجہد کی۔مولانا نے باوجود سخت بیماری کی شفقت کا معاملہ فرمایا اور طلبہ کی دعوت کو قبول فرمایا۔مدینہ یونیورسٹی میں دنیا کے 160 سے زائد ملکوں کے طلبہ پڑھتے ہیں۔جن میں سعودی طلبہ کے بعد سب سے زیادہ پاکستانی اور انڈین طلبہ ہوتے ہیں۔ طلبہ حسب پروگرام مقررہ جگہ پر پہنچ گئے۔مولانا نے سوا گھنٹے سے زائد خطاب کیا۔انتہائی مدلل اور علمی گفتگو ارشاد فرمائی۔امت کے زوال کے اسباب اورعصرحاضرمیں علماءکرام کی ذمہ داریوں پر زور دیا۔باہمی اتفاق اور رواداری کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔اس سلسلے میں مولانا نے بنیادی بات یہ ارشاد فرمائی کہ امت مسلمہ کی تاریخ کے اجمالی طور پردو دور رہے،ذیلی طورپرکئی ادوار ہوسکتے ہیں۔ایک وہ دور ہے جب امت پوری دنیا پر غالب رہی اورچھائی رہی۔پوری دنیا امت مسلمہ کی تقلید کرتی تھی۔اسلام نے نہ صرف دینی و اخلاقی طور پردنیا کو مہذب بنایا،بلکہ معاشی، سیاسی، سائنسی اور تمدنی طور پر بھی اسلام نے د±نیا کو بہت کچھ دیا،یہی وجہ ہے کہ ساری مادی اورسائنسی ترقیاں اسلام اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد ہوئیں۔جس پر پوری دنیا کو اسلام کا مشکور ہونا چاھیے۔اسلام کی آمد کے بعد یہ ساری ترقیاں اس لیے ہوئیں کہ اسلام سے پہلے دنیا ہرچیز کو معبود بنائی ہوئی تھی، سورج، چاند ،ستارے اور دریاؤں کی لوگ پرستش کرتے تھے۔بھلا جن کو لوگ خدا کا درجہ دیے بیٹھے ہوں ان پر کوئی ریسرچ کے نام پر تجربات کرنے کاکوئی سوچ سکتاہے؟آپ کی آمد کے بعد لوگوں کو ادراک ہوا کہ یہ ساری چیزیں تو انسان کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہیں۔
امت مسلمہ کی تاریخ کا دوسرا دور تب شروع ہوا جب اللہ نے مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے قیادت کے اسٹیج سے امت کونیچے اتار دیا اور مسلمان مغلوب ہوگئے۔یہی دور ہے جس میں آج ہم جی رہے ہیں۔اس دور کے تقاضے پہلے دور سے یقینا مختلف ہیں۔اس دور میں امت مسلمہ کو تمام مسلکی ونظریاتی اورباہمی اختلافات سے بالا ہوکر کافروں کے مقابلے یک جا ہونے کو اپنا ہدف بنانا چاہیے۔لیکن افسوس امت مسلمہ آج باہمی اور مسلکی اختلافات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔یہ فکر کہ ساری خوبیاں ہمارے مسلک میں ہیں اور دوسرے مکتبہ فکر والے زیغ وضلال میں پڑے ہیں ایک ایسی سوچ ہے جس نے امت کو منتشرکرنے میں تلوار کا کام کیا ہے۔مولانا کے بقول امت کے جوڑ میں ہماراتعلیمی نظام بھی حائل ہے جہاں فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر عموماً ایک دوسرے کو ہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالاں کہ اللہ نےنفس اور شیطان کو دشمن بتایا اور اسے ہرانے کے حکم دیا ہے۔اگر امت کے تمام مکاتب فکر "مقاصد” پر فوکس کریں اور "وسائل” پر اصرار نہ کریں توان میں اتفاق اور یک جائی بہت ممکن ہے۔چناچہ اگر تقوی،رضاء الٰہی،اخلاقی اور روحانی تربیت اور اللہ سے سچا تعلق ایسے مقاصد پر زور دیا جائے تو امت کا کوئی بھی طبقہ اس کا انکار نہیں کرے گا،لیکن اگر لفظ تصوف پر زور دیے کر امت کے تمام مکاتب فکر کو تصوف پر مجبور کیا جائے تو شاید بہت سے طبقات اس پرقیامت تک متفق نہ ہوں۔اس لیے آج مقاصد اور متفقات پر زور دیا جائے نہ کہ وسائل اور اصطلاحات پر۔اس کے لیے سب سے پہلے دل کا صاف ہونا ضروری ہے،پھر صبر اور محبت کا دامن بھی تھامنا ہوگا۔اگر ان دو باتوں کو ہر مسلمان اپنی عادت بنالے تو امت میں باآسانی جوڑ پیدا ہوجائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ شدید بے چینی کے عالم میں ہے۔اس کے لیے نہ صرف مخلص اور محبت کرنے والے داعیوں کی ضرورت ہے بلکہ امت کے مختلف طبقات کوباہم جوڑنے کی بھی ضرورت ہے۔یہ ذمہ داری بنیادی طور پر علماء کرام اور مذہبی طبقات کی ہے کیوں کہ یہی انبیاء کرام کے وارث ہیں۔اس کے لیے سب سے پہلے دلوں کو وسیع کرنا اوردوسروں کو بھی محبت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔اس کے ساتھ علماء کرام کو دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا،اپنے تعلیمی نظام کو اس طور پر ترتیب دینا ہوگا ،جہاں نہ صرف روحانی واخلاقی تربیت یافتہ علماء کرام پیدا ہوں بلکہ روحانی اوراخلاقی اوصاف کے حامل ڈاکٹرز،انجینئرز ،سائنٹسٹ،بیوروکریٹس اور بزنس مین بھی پیدا ہوں جو معاشرے میں مادیت اور روحانیت کا ایک ایسا معتدل نمونہ پیش کریں جو امت مسلمہ کے غلبے کا مظہر ہو اور پھر سے دنیا امت مسلمہ کے اس بہترین ماڈل کی تقلید پر مجبور ہوجائے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close