تجارت

ایک ماہ 33 کروڑ یونٹس بجلی چوری اور لائن لاسز کی نذر، عوام کو 2 ارب روپے کا نقصان

بجلی کے ناقص ترسیلی نظام کی وجہ سے عوام کو ایک ماہ کے دوران 2 ارب 14 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ ماہ 33 کروڑ یونٹس بجلی چوری اورلائن لاسز کی نذر ہوگئے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اگست کے مہینے میں 12 ارب 75 کروڑ 43 لاکھ یونٹس پیدا کیے گئے اور فی یونٹ قیمت 4 روپے 49 پیسے رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق ناقص ترسیلی نظام کے باعث 33 کروڑ سے زائد یونٹس ضائع ہوئے جن کا بوجھ بھی عوام کو برداشت کرنا پڑا۔ دستاویز کے مطابق صرف ایک ماہ کے دوران نقصانات کی وجہ سے عوام کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔ تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے جو بجلی عوام کو فراہم کی گئی وہ مہنگے ذرائع سے پیدا کی گئی۔ گزشتہ ماہ کے دوران ہائیڈل سے 4 ارب 19 کروڑ یونٹس سے زائد بجلی پیدا کی گئی۔ صرف ایک ماہ کے دوران فرنس آئل سے 29 فیصد بجلی پیدا کی گئی اور فرنس آئل سے عوام کو 29 ارب 32 کروڑ روپے کی بجلی فراہم کی گئی۔ فرنس آئل سے پیدا ہو نے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت 9 روپے 39 پیسے رہی۔ اگست کے دوران ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 4 ارب 53 کروڑ روپے سے زائد کی بجلی پیدا کی گئی اور اس کی فی یونٹ قیمت ساڑھے 13 روپے رہی ہے۔

درآمدی ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 7 روپے 47 پیسے فی یونٹ رہی۔ سی پی پی اے کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی کے دوران 21 کروڑ  55 لاکھ یونٹس سے زائد کی بجلی ضائع ہوئی تھی اور عوام کو ایک ارب 39 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگایا گیا تھا اور بجلی کے لاسز 1.73 فیصد تھے جو ایک ماہ بعد اگست میں بڑھ کر -2.60 فیصد تک پہنچ چکے ہیں اور جولائی کے دوران بھی بجلی کی پیدوار کا انحصار فرنس آئل اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر رہا۔ حکومت کی جانب سے ہر بار یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میںبہتری لائی گئی ہے۔ تاہم صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ چار سال گزرنے کے باوجود بھی نہ تو انرجی مکس کو بہتر کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ترسیلی نقصانات اور لائن لاسز کی شرح کم ہو سکی ہے۔ ذارئع کے مطابق اس سلسلے میں جب موقف لینے کیلیے پاور سیکٹر کے ریگولیٹری ادارے نیپرا کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو متعدد مرتبہ کوششوں کے باوجود ان سے بات نہ ہوسکی اور ان کا نمبر بند جا رہا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close