تجارت

پاکستانی برآمدات میں کمی ، تجارتی خسارہ 20بلین ڈالر سے بڑھ کر 32.5بلین ڈالر تک پہنچ گیا

ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے ڈائریکٹرعبدالکریم میمن نے کہاہے کہ پاکستان اور بلوچستان کو معاشی طورپر خوشحال بنانے کیلئے ہمیں برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہیں ،گزشتہ دس سا لوں میں تجا رتی خسا ر ے کا 20ارب ڈا لرسے32.5ارب ڈا لرز تک بڑھ جا نا تشویشنا ک ہے اس کی خاص وجہ سالانہ ٹریڈاسٹریٹجک پالیسز پر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان را بطے کا فقدان بھی ہے،5سالہ ٹریڈ پالیسی فریم ورک کے حوالے سے ملک بھر کے رجسٹرڈ چیمبر آف کامرس کے ساتھ بلوچستان کے چیمبرآف کامرس کے عہدیداران اورممبران کی تجاویز اور رائے لینے کیلئے آئے ہیں تجارتی حوالے سے کم ترقی یافتہ علاقے موجودہ حکومت اور وزارت تجارت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ٹریڈ پالیسی فریم ورک پر جون تک کام مکمل کرلیاجائے گا اور اسے پالیسی بنانے کیلئے وزیراعظم کو پیش کردیاجائے گا رواں سال کے دوران ہم بائیرز کانفرنس کاانعقاد بھی کرینگے ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کے برآمدات کو 36بلین ڈالرز تک فوری طور پر لے جایاجاسکے ،ان خیالات کااظہار انہوں نے ایوان صنعت وتجارت کوئٹہ بلوچستان میں چیمبرآف کامرس کے عہدیداران اور ممبران کو ٹریڈ پالیسی فریم ورک سے متعلق بریفنگ اور اس موقع پر اظہار خیال ہوئے کیا ۔اس سے قبل چیمبرآف کامرس کے سینئر نائب صدر محمد ایوب خلجی نے عبدالکریم مین اور ٹی ڈیپ کوئٹہ کے اطلس خان اور دیگر کو چیمبرآف کامرس آنے پر خوش آمدید کہا اور امید ظاہر کی کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تجارت سے وابستہ افراد اور صنعت کاروں سمیت دیگر کی تجاویز اور آراء کو خصوصی اہمیت دیںگے ۔انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے افغانستان اور ایران کے ساتھ سینکڑوں کلو میٹر پر محیط بارڈرز ہیں اور ان دونوں ممالک کے ساتھ بلوچستان کے صنعت وتجارت سے وابستہ افراد دو طرفہ تجارت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن افسوس کہ بینکنگ سسٹم سمیت دیگر سہولیات یہاں کی صنعت وتجارت سے وابستہ افراد کو حاصل ہی نہیں اور نہ ہی چیمبرآف کامرس کے عہدیداران اور ممبران کی تجاویز کو بجٹ سازی اور دیگر میں اہمیت دی جاتی ہے ہمیں ری ایکٹو کی بجائے پرو ایکٹو ہونے کا کہاجارہاہے لیکن سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے مخصوص حالات اور دیگر کو مد نظررکھنے کی بجائے بیوروکریٹک طریقے سے ٹریڈ پالیسی بنائی جاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ایس آر او نمبر1035 پر اعتراض نہیں لیکن اس کے ذریعے بلوچستان میں لوگ ایک مرتبہ پھر قانونی تجارت کی بجائے اسمگلنگ کی طرف راغب ہونگے جب تک حکومت کی جانب سے تجارت کے حوالے سے کم ترقی یافتہ علاقوںکو ترجیح نہیں دی جائیگی اس وقت تک معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا جبکہ سینئر نائب صدر محمد طاہر خان نے بھی صوبے کی تجارت سے وابستہ افراد کو درپیش مشکلات سے وفد کے اراکین کو آگاہ کیا اور انہیں بتایاکہ ایک طرف ای فارمز اور دیگر شرائط لاگو ہے تو دوسری طرف امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جارہی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اس موقع پر ٹی ڈیپ کے عبدالکریم میمن کاکہناتھاکہ بلوچستان کے صنعت وتجارت سے وابستہ افراد کے گلے شکوے اپنی جگہ تاہم ہر خرابی کاالزام حکومت اور اس کے محکموں اور اداروں کو دینا درست نہیں ہے ۔وزارت تجارت نے ٹریڈ پالیسی فریم ورک سے متعلق ملک کے تمام رجسٹرڈ چیمبر سے تجاویز طلب کی ہے لیکن ابھی تک بہت سے چیمبرز کی جانب سے انہیں تحریری طور پر تجاویز نہیں ملے ہیں ،ان کاکہناتھاکہ گزشتہ دس سال کے دوران پاکستانی برآمدات میں خاطر خوا ہ اضافہ نہیں ہوسکا ہے اسی لئے تجارتی خسارہ 20بلین ڈالر سے بڑھ کر 32.5بلین ڈالر تک پہنچ چکاہے اس کی خاص وجہ امپورٹ کا روز بروز بڑھنا اور ایکسپورٹ کا نہ بھڑناہے انہوں نے کہاکہ پاکستان 60برآمدات دنیا کی 5مارکیٹوں کو کرتاہے جن میں امریکہ ،یورپی یونین اوردیگر شامل ہیں لیکن ہمارے ایکسپورٹ کوالٹی کے ایٹمز ہی ہے جن میں چمڑا ،چاول اور کپڑا قابل ذکر ہے ۔انہوں نے کہاکہ ریجنل ٹریڈ کو بڑھانے کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں بھی زیادہ کارآمد زیادہ ثابت نہیں ہوسکی ہیں ہم نے انڈونیشیاء اور چائنا کے ساتھ معاہدات کئے ہیں لیکن ان معاہدات کا ہم سے زیادہ فائدہ انہی ممالک کو ہوا انہوں نے کہاکہ ٹریڈ پالیسی فریم ورک مارچ 2016ء میں لایاگیا لیکن اس کی پبلکیشن ،میڈریوو اور دیگر میں تاخیر کے باعث مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے انہوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ ایکسپورٹ کو بڑھا کر امپورٹ کو کم کیا جاسکے ہم یورپی یونین کی جانب سے جی ایس ٹی پلس کے صفر ٹیرف سے بھی فائدہ اٹھاناچاہ رہے ہیں اس سلسلے میں حکام یورپی یونین کے ساتھ مل کرکام کررہے ہیں انہوں نے کہاک آسٹریلیا ،چلی ،جاپان اور بعض دیگر ممالک کےساتھ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے بات چیت جاری ہے بلکہ افریقہ کوایکسپورٹ کرنے والوں کیلئے خصوصی پیکج اور رعایت کااعلان کیاجائے گا۔انہوں نے کہاکہ ایکسپو پاکستان میں بلوچستان کے صنعت وتجارت سے وابستہ افراد کو دلچسپی لینی چاہے ،اگر ٹریڈ پالیسی فریم ورک پر اسی رفتار سے کام جاری رہا تو ہم بہت جلد ایکسپورٹ کے36.12 بلین ڈالرز کے اہداف حاصل کرلیںگے انہوں نے کہاکہ ٹیرف بیریئرز مارکیٹوں تک سائی اور دیگر پر توجہ دی جارہی ہے ہمیں ری ایکٹو ہونے کی بجائے پروو ایکٹو ہونا ہوگا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں اور تجارت سے وابستہ افراد کی تجاویز پرعملدرآمد کو یقینی بنایاجائیگا انہوں نے کہاکہ ہم2018ء کے اختتام تک بائیرز کا بھی انعقاد کرینگے ہمیں انٹرنیشنلائزیشن کی جانب جانا ہوگا اس سے پاکستان میں معاشی خوشحالی آئے گی اس موقع پر چیمبرآف کامرس کے فائونڈر ممبر حاجی نیاز محمد عرف نانو جی نے بھی ٹی ڈیپ کے حکام سے گلہ کیا کہ وفاقی سطح پر بلوچستان کی صنعت وتجارت سے وابستہ افراد کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی ان کی تجاویز پر غور کیاجاتاہے جس کے باعث انہیں مایوسی ہوئی ہے ۔چیمبرآف کامرس کے محمد امجد صدیقی نے وفد کے اراکین کو بتایاکہ بلوچستان میں مائننگ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے بلکہ پاکستان سٹور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بھی دوبارہ فعال کیاجاناچاہیے ،انہوں نے شکوہ کیا کہ معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں انگریز دور کے بعد اب تک معدنیات کے حوالے سے جیالوجیکل سروے ہی نہیںہوئی ،ٹریڈ پالیسی فریم ورک میں بلوچستان کے صنعت وتجارت سے وابستہ افراد کے مسائل کو سمجھاجاناچاہیے ایسا نہیں ہوگا تو بات آگے نہی بڑھے گی ،وومن چیمبرآف کامرس کے اراکین کی جانب سے وفد کے شرکاء کو خوش آمدیدکہاگیا اور ان کی توجہ مبذول کرائی گئی کہ صوبے میں ایکسپو سینٹر کی فوری تعمیر اور دیگر کے حوالے سے وفاق کو اقدامات اٹھانے چاہیے جب تک بلوچستان کے ساتھ خصوصی رعایت اور اچھا برتائو نہیں کیاجائیگا اس وقت تک مطلوبہ اہداف اور نتائج ہمیں نہیں مل سکیںگے ۔انہوں نے کہاکہ اہداف تو ملک کے دیگر صوبوں کے ساتھ ہی دئیے جاتے ہیں لیکن سبسڈی اور دیگر میں بلوچستان کا خیال نہیں رکھاجاتا ۔اجلاس کے دوران امپورٹرز ،ایکسپورٹرز سید عبدالرحمن شاہ ،جمعہ خان بادیزئی ،حاجی جانان خان اچکزئی ،حاجی سرور سمیت دیگر نے بھی تجارت وصنعت سے وابستہ افراد کو درپیش مشکلات اور انہیں حل کرنے کیلئے مختلف تجاویز پیش کیںآخر میں مہمانوں کو چیمبرآف کامرس کی جانب سے خصوصی شیلڈ پیش کئے گئے ۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close