Featuredتجارت

حکومت کا منی لانڈرنگ روکنے کیلئے قوانین میں ترمیم کا فیصلہ

اسلام آباد: ملک سے غیر قانونی طور پر رقم کی بیرونِ ملک منتقلی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے بین الاقوامی احکامات کے تحت وفاقی حکومت نے ادارہ جاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے قوانین میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت اجلاس میں ہونے والے اجلاس میں ایف آئی اے ایکٹ 1974، کسٹم ایکٹ 1969، منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ برائے سال 1947 پر نظر ثانی کی گئی۔

اس سلسلے میں’ہنڈی، حوالہ‘ سمیت رقم کی منتقلی کے غیر قانونی ذرائع اور ٹیکس سے بچنے کے طریقوں پر نظر رکھنے کے لیے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے کردار کو مضبوط بنانے کے لیے قوانین میں ترمیم کی تجاویز کو اجلاس میں حتمی شکل دی گئی، جو منظوری کے لیے وزیر اعظم کو ارسال کی جائیں گی۔

اجلاس میں اٹارنی جنرل، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری قانون و انصاف، سیکریٹری تجارت، ایڈیشنل سیکریٹری امورِ خارجہ، گورنر اسٹیٹ بینک، داخلہ اور خزانہ کے خصوصی سیکریٹریز، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک کے شعبہ نگرانی برائے مالیاتی امور، ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو کے عہدیداران نے شرکت کی۔

خیال رہے کہ پاکستان کو پہلے ہی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ کا سامنا ہے۔

منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترامیم سے ٹیکس سے بچنے کے طریقہ کار پر نظر رکھنے میں ایف بی آر کا کردار مزید فعال ہوجائے گا۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ رقم کی غیر قانونی منتقلی بالخصوص کرنسی اسمگلنگ کے حوالے سے ایف بی آر کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور فیصلہ کیا گیا رقم خاص کر ڈالر کی بیرونِ ملک منتقلی روکنے کے لیے محکمہ کسٹمز کو بھی مزید فعال کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ شعبہ کسٹمز اور ایف آئی اے ملک سے انسانی ذرائع سے رقم کی اسمگلنگ روکنے کی ذمہ دار ہے، اس ضمن میں اسمگلروں کے لیے سخت سزاؤں کی بھی تجویز دی گئی۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایف بی آر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’ہنڈی اور حوالہ رقم کی منتقلی کے عمومی طور پر رائج ذرائع ہیں اور انہیں کچھ مذہبی طبقات کی جانب سے فروغ دیا جاتا ہے، جو بینک سے رقم کے لین دین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔’

ہنڈی اور حوالہ کے نظام کی وضاحت کرتے ہوئے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس طرح رقم کی منتقلی محض بھروسے پر مبنی ہوتی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے اہلِ خانہ کو رقم ارسال کرنا چاہتا ہے تو وہ ہنڈی کرنے والے شخص سے رابطہ کرتا ہے اور اسے مقامی کرنسی میں رقم دے کر وصول کنندہ کی تفصیلات فراہم کردیتا ہے۔

ہنڈی کرنے والوں کے دنیا کے کئی ممالک میں روابط ہوتے ہیں جس کے بعد وہ دوسرے ملک میں موجود اپنے شراکت دار سے رابطہ کرتے ہیں، بعد ازاں وہ شخص وصول کنندہ سے رابطہ کر کے رقم وصول کرنے کے لیے کہتا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close