تجارت

رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی میں اضافے کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا، اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں چھ اعشاریہ دو فیصد اضافے کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا، شرحِ نمو چار اعشاریہ سات فی صد سے پانچ اعشاریہ دو فیصد کے درمیان رہے گی۔

اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صنعتی شعبہ سست روی کا شکار ہوسکتا ہے، زرعی شعبہ پچھلے سال سے کم کارکردگی دکھائے گا، دونوں شعبوں کی کارکردگی کا منفی اثر سروسز سیکٹر پر بھی ہوگا، مہنگائی کا ہدف چھ فی صد رکھا گیا مگر بجلی، گیس اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کے سبب افراط زر کی شرح ساڑھے چھ سے ساڑھے سات فی صد تک رہے گی۔

اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں مالی سال کیلئے شرحِ نمو میں چھ اعشاریہ دو فی صد اضافے کی توقع پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی، صنعتی شعبے میں سست روی آ سکتی ہے۔ صارفین کی طلب میں کمی ہو سکتی ہے۔ تعمیرات کی صنعت میں بھی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے۔ گنے کی فصل میں کمی سے چینی کی پیداوار بھی کم ہو سکتی ہے۔ زرعی شعبے نے پچھلے سال غیر معمولی کارکردگی دکھائی تھی۔ اس سال ویسی عمدہ کارکردگی شاید ممکن نہ رہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق حالیہ بارشوں اور پانی کی دستیابی کی وجہ سے چاول اور کپاس کی فصلیں بہتر ہو جائیں گی۔ پچھلے سال زرعی شعبے میں افزائش کی شرح تین اعشاریہ آٹھ فی صد رہی مگر رواں مالی سال شاید اس سے کم رہے۔ صنعتی اور زرعی شعبے میں شرح نمو کم ہونے کا برا اثر سروسز سیکٹر پر بھی پڑے گا۔

رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی میں اضافے کی شرح چار اعشاریہ سات فی صد سے پانچ اعشاریہ دو فی صد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ درآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے درآمدی بل میں جو کمی ہونا تھی اس کا اثر تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے سبب زائل ہو جائے گا۔ برآمدات میں پچھلے سال کی طرح اضافے کا رجحان رہے گا مگر بین الاقوامی تجارتی تنازعات سے اس پر برا اثر ہو سکتا ہے۔

مرکزی بینک کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خوراک کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں گندم کی قیمت بڑھے گی اور اگر پاکستان ملکی گندم بچا سکا تو باہر بیچ سکے گا۔

رپورٹ کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں معمولی اضافے کا امکان ہے۔ جاری حسابات کا خسارہ جی ڈی پی کے پانچ سے چھ فی صد تک رہنے کا امکان ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور کفایت شعاری کے نتیجے میں صارفین کی جانب سے روپے کے خرچ میں کمی ہو سکتی ہے۔ مہنگائی کا دباؤ برقرار رہے گا۔

اس کے علاوہ گیس، تیل اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی۔ رواں سال افراط زر کی شرح ساڑھے چھ سے ساڑھے سات فی صد کے درمیان رہے گی۔ پچھلے مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح تین اعشاریہ نو فی صد رہی تھی اور اس سال اس کا ہدف چھ فی صد رکھا گیا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close