تعلیم و ٹیکنالوجی

امریکی جوڑے کا ’ڈیجیٹل جہنم‘ کے خلاف مقدمہ

میکس مائنڈ نامی کمپنی انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہونے کے لیے استعمال میں آنے والے آئی پی ایڈریسز کو مربوط کرتا ہے تاہم کہا جاتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ درست جگہ کی ہی نشاندہی کرے۔

آرنالڈ جیمز اور تھریسا کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ان کے مکان کو تقریباً 60 کروڑ لوگوں کے پتوں کے مقام کے طور پر رجسٹرڈ کر رکھا ہے جس سے ان کو شدید پریشانیاں اٹھانی پڑی ہیں۔

ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے یہ بات آسانی سے تسلیم کر لی کہ بہت سے جرائم انھی کے مکان میں انجام دیے گئے۔

کنساسا کی عدالت میں دائر کیے جانے والے مقدمے کے مطابق آرنالڈ جب اس مکان میں منتقل ہوئے تو پہلے ہی ہفتے مقامی انتظامیہ کے افسر ایک گم شدہ ٹرک کی تلاش میں ان کے مکان پر پہنچے۔ گذشتہ پانچ برس میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں۔

اس جوڑے کا کہنا ہے کہ کبھی ان کے گھر پر مقامی انتظامیہ کے لوگ بچے کی تلاش کے لیے آتے تو کبھی کسی گمشدہ کی تلاش ان کے مکان میں کی جاتی۔ کئی بار کمپیوٹر فراڈ یا پھر خودکشی کی کوشش کرنے کے سلسلے میں ان مکان پر چھاپہ مارا جاتا۔

آئی پی ایڈرس کا استعمال کسی فرد کے مکان کی شناحت کے لیے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سو فیصد درست نہیں ہوتا اور اس میں غلطی بھی ہوجاتی ہے۔

گذشتہ اپریل میں ایک نجی ٹی وی اور ویب سائٹ کی کمپنی فیوژن نے جب اس کی تفتیش کی تو پتہ چلا کہ اس جائیداد کے مالک جوائس ٹیلر اور ان کے کرائے داروں کو شناخت کی چوری ، بد عنوانی اور فراڈ کرنے جیسے الزامات کا کئی برسوں سے سامنا ہے۔

فیوژن کا کہنا تھا کہ یہ سب میکس مائنڈ کی جانب سے آئی پی میپنگ کرنے کی وجہ سے ہوا جس نے اس عمارت کو ایسے آئی پیز کے لیے ڈیفالٹ مقام کی جگہ طے کر دی جن کے متعلق درست معلومات نہ ہوں اور وہ امریکہ میں ہوں۔

کنساسا کے جس مکان میں جیمز آرنالڈ 2011 سے کرائے پر رہتے ہیں وہ جغرافیائی اعتبار سے ملک کے مرکز میں واقع ہے۔

امریکی جوڑے نے میکس مائنڈ پر لاپراوہی برتنے اور غیر ذمہ دارنہ طریقے سے کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

ان کا موقف ہے کہ میکس مائنڈ کی وجہ سے انھیں جذباتی صدمہ پہنچا، ان کی جان کو خطرہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ کئی بار سرمشار بھی ہونا پڑا۔

امریکی جوڑنے نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ کمپنی کو انھیں ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

دوسری جانب میکس مائنڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس نوعیت کے مقدمے سے واقف ہے لیکن چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے اس پر کوئی بھی تبصرہ نہیں کرے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close