انٹرٹینمنٹ

ہر دور کے سب سے مقبول 20 پاکستانی ڈرامے

جب بات آتی ہے تفریح کی تو موجودہ دور میں ٹیلیویژن عام افراد کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاسکتا ہے اور اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں کے علاوہ کس کی ہو سکتی ہے جس میں معاشرے کے مختلف رنگوں کی کہانیاں لوگوں کو اپنے سامنے باندھے رکھتی ہیں۔

اور اس معاملے میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک جیسے ہندوستان سے بہت آگے ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی ایک انڈین چینل پر نئی نسل کے پاکستانی ڈراموں جیسے زندگی گلزار ہے، مات یا دیگر نے دھوم مچا کر رکھ دی ہے اور پاکستانی اداکار وہاں سپر اسٹار بن کر ابھرے ہیں۔

مگر کیا آپ کو وہ عہد یاد ہے جب کیبل یا ڈش کا وجود نہیں تھا اور گھروں میں پاکستان ٹیلیویژن (پی ٹی وی) کے ڈراموں کا سحر طاری رہتا تھا جن کا معیار آج کے ڈرامے بھی چھونے میں ناکام نظر آتے ہیں؟ تو ہم نے اس دور کے چند ڈراموں کی ناظرین کی پسندیدگی کے اعتبار سے درجہ بندی کی ہے جو ہو سکتا ہے آپ کی اپنی تیار کردہ فہرست سے بھی مطابقت رکھتی ہو تو پاکستان کے ہر دور کا سب سے بہترین ڈرامہ قرار پاتا ہے ‘خدا کی بستی’ جس کا جادو آج تک ختم نہیں ہو سکا ہے۔


خدا کی بستی


شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ ‘خدا کی بستی’ میں ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے شب و روز کو موضوع بنایا گیا ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ایک بستی میں آباد ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا ہر طرح کے معاشرتی، معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کمزوروں کی بے بسی، طاقتوروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکیداروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر رخ موجود تھا۔ اسی لیے یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔ اس کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ اس روز ‘خدا کی بستی’ نے نشر نہ ہونا ہو۔


آنگن ٹیڑھا


مزاح اور حاضر جوابی کے جملے سے بھرپور یہ ڈرامہ انور مقصود کے کریئر کا بھی سب سے بڑا شو سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنے پہلے روز سے یہ ڈرامہ سلیم ناصر، شکیل، بشریٰ انصاری اور دردانہ بٹ کی بے مثال اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں ایسا بسا کہ اب تک اسے نکالا نہیں جا سکا ہے۔ ہر قسط میں مختلف مسائل کو ایسے پُر مزاح انداز میں پیش کیا جاتا کہ کسی کو گراں بھی نہیں گزرتا اور سماجی شعور بھی پیدا ہوتا۔ یہ ڈرامہ اب تک متعدد بار دوبارہ نشر ہو چکا ہے اور ہر نسل اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتی ہے جبکہ اس پر ایک سٹیج ڈرامہ بھی تیار کیا گیا ہے۔


جانگلوس


دو قیدی لالی اور رحیم داد کے جیل سے فرار کے بعد وسطی پنجاب کے پسِ منظر میں چلنے والے اس ڈرامے کو کون بھول سکتا ہے۔ شوکت صدیقی کے ایک اور بہترین ناول کو بنیاد بنا کر پی ٹی وی نے 1989 میں اس ڈرامے کو نشر کیا اور اس نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ ایم وارثی اور شبیر جان قیدیوں کے مرکزی کردار میں موجود تھے تو سلیم ناصر، شگفتہ اعجاز، ظہور احمد، اور دیگر نے بھی اپنے کریکٹرز سے بخوبی انصاف کیا۔ ‘جانگلوس’ میں با اختیار طبقے کے تاریک چہرے سے نقاب نوچا گیا تھا اور بظاہر یہی وجہ ہے کہ تین حصوں پر مشتمل ناول کا ایک ہی حصہ ٹیلیویژن اسکرین کی زینت بنا تھا کہ اور پھر یہ ڈراما بند کروا دیا گیا۔


وارث


جن لوگوں کو ڈرامہ ‘وارث’ دیکھنے کا موقع ملا ہے انہیں یاد ہوگا کہ کس طرح اس کے نشر ہونے کے وقت صحرا کا منظر پیش ہونے لگتا تھا، جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرنے والا یہ ڈرامہ معروف شاعر امجد اسلام امجد کے قلم سے تحریر کئے گئے مضبوط سکرپٹ اور ہدایتکار نصرت ٹھاکر کی گرفت کی بدولت ماسٹر پیس قرار دیا جا سکتا ہے۔ وارث جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی، بااثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے جس میں ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے پرستار چوہدری حشمت کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا جاندار کردار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا جبکہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر بھی اسے اپنی زندگی کا لازوال ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔


تنہائیاں


تنہائیاں سٹار کاسٹ جیسے شہناز شیخ، آصف رضا میر، بدر خلیل، بہروز سبزواری اور مرینہ خان سے سجا ہوا تھا۔ اس ڈرامے کے ہر اداکار نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا اور اسے شاہکار بنا دیا۔ حسینہ معین کا سکرپٹ اور شہزاد خلیل کی ہدایات میں بننے والا یہ ڈرامہ دو بہنوں کے گرد گھومتا ہے جو ایک حادثے میں اپنے والدین سے محروم ہوجاتی ہیں اور خالہ کے ساتھ مل کر زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے اور منزل کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے ان کا واسطہ کئی دلچسپ کرداروں سے پڑتا ہے اور یہ سفر دیکھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔


اندھیرا اجالا


ایڈونچر پسند ناظرین آج تک پی ٹی وی پر نشر ہونے والے جرائم کی تحقیقات پر مبنی ڈرامے ‘اندھیرا اجالا’ کو نہیں بھولے۔ 1984-85 میں یونس جاوید کی تحریر اور رشید ڈار کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے کو پاکستان میں جرائم کے خلاف پولیس کی مثبت کاوشوں کے اظہار کا پہلا ڈرامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ قوی خان نے اعلیٰ پولیس افسر کی شکل میں مرکزی کردار ادا کیا، تاہم جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ نے بھی اپنے کرداروں کو لازوال بنایا۔ اس ڈرامے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے عہد کے معروف اداکار فیصل قریشی بھی اس میں چائلڈ کریکٹر کی شکل میں موجود ہیں۔


دھواں


پی ٹی وی کی تاریخ میں اگر کوئی پہلے ایکشن ڈرامے کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے تو وہ ‘دھواں’ ہی ہے۔ عاشر عظیم نے اسے تحریر کیا اور انہوں نے ہی پولیس افسر اور ایک خفیہ ایجنٹ کا مرکزی کردار بھی کیا، جبکہ نبیل، نازلی نصر اور نیئر اعجاز کے کرداروں کو بھی آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ سجاد احمد کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیاں اور پولیس کی کمزوریوں کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی گئی تھی جن سے نمٹنے کا بیڑہ چند نوجوان اٹھاتے ہیں، جن کی دوستی بھی دیکھنے والوں کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ اس ڈرامے کا المیہ اختتام بھی انتہائی پُراثر ثابت ہوا اور آج بھی اسے کلاسیک سمجھا جاتا ہے۔


آنچ


اداکار شفیع محمد کو شہرت دلانے والا یہ ڈرامہ گھریلو مسائل کو آشکار کرنے کے باعث خواتین میں تو بہت ہی زیادہ مقبول ہوا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی اور بڑے ہوتے بچوں کی سوتیلی ماں سے کشمکش یہ سب عوامل صاف ظاہر ہے خواتین کے دلوں کو کچھ زیادہ ہی بھائے جب ہی یہ ڈرامہ اپنے دور میں انتہائی مقبول ثابت ہوا بلکہ سڑکوں کو سنسان کر دینے کا باعث بنا۔ ناہید سلطانہ اختر کے ایک ناول کے خیال پر مبنی اس ڈرامے کی ہدایات طارق جمیل نے دیں جبکہ شفیع محمد اور شگفتہ اعجاز نے مرکزی کردار ادا کئے۔


من چلے کا سودا


پی ٹی وی کا ایک اور کلاسیک ڈرامہ جس پر اس زمانے میں کافی اعتراضات بھی سامنے آئے۔ معروف مصنف اشفاق احمد نے اسے تحریر کیا جو روحانیت کی جانب لگاﺅ رکھتے تھے جس کا اظہار اس ڈرامے میں بھی ہوتا ہے۔ فردوس جمال، خیام سرحدی اور قوی خان کو لے کر ہدایتکار رشید ڈار نے اس ڈرامے کو تیار کیا جس میں ایک ماڈرن شخص کو اپنی زندگی سے بیزاری کے بعد صوفی ازم اور روحانیت کی جانب مائل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس سفر پر اکثر حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے تاہم اس کے باوجود یہ ڈرامہ اپنے دور میں سپر ہٹ ثابت ہوا۔


ہوائیں


ہوائیں پی ٹی وی کا وہ ڈرامہ ہے جو آج بھی ان لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے جنھوں نے اسے دیکھا تھا۔ حیدر امام رضوی کی ہدایات اور فرزانہ ندیم سید کی تحریر سے سجے اس ڈرامے میں محمود علی، فرید نواز بلوچ، غزالہ کیفی، قیصر خان نظامانی، کومل رضوی، قاضی واجد، ہما نواب اور عبداللہ کادوانی جیسے اداکاروں نے کام کیا مگر جو شخص لوگوں کے ذہنوں پر چھایا وہ طلعت حسین تھے۔ یہ ڈرامہ ایک خاندان کی مشکلات کے گرد گھومتا ہے جس کا سربراہ قتل کے جعلی الزام پر گرفتار ہوجاتا ہے اور اس الزام کو ختم کرنے کے لیے اس کی کوششیں اور جدوجہد دیکھنے والوں کے دلوں کو نرم کردیتی ہیں۔

شمع


یہ ڈراما اگرچہ بلیک اینڈ وائٹ تھا مگر اس کے باوجود یہ نشر ہوتے ہی لوگوں کے دلوں کو بھا گیا۔ اے آر خاتون کے ناول کو لے کر فاطمہ ثریا بجیا نے اسے ڈرامائی شکل دی اور ٹی وی پر اپنے طویل سفر کا آغاز کیا۔ لیجنڈ ہدایتکار قاسم جلالی نے اس ڈرامے کو حقیقی زندگی کے اتنے قریب کر دیا کہ اسے دیکھنے والوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے گھر کی کہانی ٹی وی پر بیان کی جا رہی ہے۔ جاوید شیخ، قربان جیلانی، عشرت حسین اور دیگر کی جاندار اور زبردست اداکاری نے بھی اسے مقبول ترین بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔


راہیں


مرحوم مصنف منشا یاد کے پنجابی ناول ٹاواں ٹاواں تارا کو جب اردو شکل میں پی ٹی وی کے لیے ڈھالا گیا تو وہ ‘راہیں’ کی شکل میں ایک مقبول ترین سیریل ثابت ہوا، جس نے 1998 میں پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ طارق جمیل کی ہدایات سے سجے اس ڈرامے میں شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ اس میں دیہی عوام کو سیدھا اور شہری افراد کو نخریلا دکھایا گیا اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ توقیر ناصر، سلیم شیخ، حبیب اور غیور اختر سمیت ہر اداکار اپنے کردار میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح فٹ نظر آیا اور ان کا جادو اتنے عرصے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے۔


ان کہی


ان کہی پاکستان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے خاص طور پر شہناز شیخ، جاوید شیخ، شکیل، سلیم ناصر، بہروز سبزواری اور جمشید انصاری کی بے مثال اداکاری اور دلوں میں گھر کر جانے والے ڈائیلاگز آج تک یاد کئے جاتے ہیں۔ شعیب منصور نے 1982 میں نشر ہونے والے اس ڈرامے کی ہدایات دی تھیں جبکہ یہ حسینہ معین کے قلم کا شاہکار تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی پر حسینہ معین اور شہناز شیخ کا طوطی بولتا تھا اور اس ڈرامے میں بھی ان کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ خاص طور پر شہناز شیخ کی اوٹ پٹانگ حرکتیں ناظرین کے دلوں میں ایسی بسیں کہ آج تک وہی موجود ہیں جبکہ اسی تھیم پر ہندوستان میں کئی فلمیں بھی تیار کی گئیں۔


دھوپ کنارے


یہ ڈراما بھی حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار تھا جب کہ ہدایات راحت کاظمی کی بیگم اور معروف اداکار ساحرہ کاظمی نے دی تھیں۔ مرینہ خان اور راحت کاظمی کو اس ڈرامے کے بعد بہترین آن سکرین جوڑا تسلیم کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی زندگی پر بننے والا یہ ڈرامہ سنجیدہ راحت کاظمی اور شوخ و چنچل مرینہ خان کے گرد ہی گھومتا ہے اور ان کی کیمسٹری نے اس ڈرامے کو پی ٹی وی کی تاریخ کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک بنا دیا۔


دشت


اس ڈرامے کی عکس بندی بلوچستان کے علاقے دشت میں ہوئی۔ یہ ڈراما دو مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے جوڑے کے گرد گھومتا ہے جو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو کر شادی کر لیتے ہیں اور یہ چیز دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح یہ ڈرامہ دلچسپ انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ اداکار عابد علی نے اس کی ہدایات دیں اور عتیقہ اوڈھو، نعمان اعجاز اور اسد سمیت دیگر نے اس میں اپنی زندگی کے بہترین کردار ادا کئے۔


الفا براوو چارلی


اپنے دور کے اس مقبول ترین ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنائی گئی اس ڈراما سیریل میں تین دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کاشف کی فوج کو خیرباد کہہ دینے کی خواہش اور فراز کی اپنے دوست کو بیدار کرنے کے لیے کی جانے والی شرارتیں آپ کو اس وقت تک سکرین پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کردیں گی جب تک کہ سنجیدہ معاملات شروع نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح شرارتی کاشف کا سیاچن گلیشیئر پہنچ کر بتدریج سنجیدہ ہونا اور اپنے ملک کے لیے جان کو داﺅ پر لگا دینے کی ادا تو سب پر جادو سا کر دیتی ہے۔ پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈز توڑ دیئے تھے اور اب بھی اسے دیکھ کر وہی مزہ آتا ہے جو پہلی دفعہ دیکھ کر آتا تھا۔


عروسہ


فاطمہ ثریا بجیا بلاشبہ پاکستان کے بہترین ڈرامانگاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ انھوں نے ڈراموں میں شادی بیاہ کی رسومات پیش کرنے کا رجحان متعارف کروایا، بالخصوص ان کے ڈراموں میں مہندی کی تقاریب کو جس انداز سے پیش کیا گیا وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ شادی بیاہ کے گیت اور ٹپّے آج بھی پاکستانی ڈراموں کی شان بڑھاتے ہیں جنھیں سب سے پہلے بجیا نے چھوٹے پردے پر پیش کیا تھا۔ عروسہ ڈرامے سے مشی خان اور عدنان صدیقی جیسے باصلاحیت اداکاروں کے کریئر کی ابتدا ہوئی تھی۔ یہ اداکار آج بھی اپنے ٹیلنٹ کی بدولت ہمارے دلوں پر راج کررہے ہیں۔


انا


قاسم جیلانی کے زیر ہدایت بننے والے اس ڈرامے سے اظہار قاضی اور مہرین الہٰی جیسے زبردست اداکاروں نے ٹیلی ویژن پر قدم رکھا۔ یہ ڈرامہ 1982 میں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا تھا۔ اس ڈرامے کے لیے بجیا کو نئے چہرے کی تلاش تھی، انڈین فلم انڈسٹری کے ’اینگری ینگ مین‘ امیتابھ بچن سے مشابہ اظہار قاضی نے فوراً بجیا کی توجہ حاصل کرلی۔


افشاں


بلا شبہ یہ ڈرامہ ہر ایک کا پسندیدہ ہوگا، ڈرامے کی ہیروئن زینب عمر کے معصوم چہرے نے سب کا دل موہ لیا تھا۔ موجودہ ڈراموں میں اتنا معصوم چہرہ ڈھونڈنا یقیناً ایک مشکل کام ثابت ہوگا۔ ‘افشاں’ اے آر خاتون کے ناول پر مبنی تھا۔ اس ڈرامے میں تقسیم سے پہلے کے مسلم معاشرے کی سماجی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی اقدار کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اس ڈرامے میں ایک مہذب مسلم گھرانے کی حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے جس میں بچوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار گھر کے بزرگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور خاندان کی عزت ہر شے پر مقدم سمجھی جاتی ہے۔


سسّی پنہوں


سسّی پنہوں کی مقبول عام رومانوی لوک داستان پر مبنی یہ ڈراما فاطمہ ثریا بجیا کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک اور شاہکار تھا۔ اس کے نمایاں اداکاروں میں محمود صدیقی، جہاں آرا حئی، شکیل، ممتاز کنول اور قیصر خان شامل تھے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close