انٹرٹینمنٹ

منٹو کو سمجھنا ان کا کردار ادا کرنے سے زیادہ مشکل

منٹو پر فلم نندیتا داس کی ہدایت کاری میں بنائی جارہی ہے۔انٹرویو میں نواز الدین کا کہنا تھا کہ جب وہ فلم کی ڈائریکٹر نندیتا داس سے ملے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا، ’تم ہی میرے منٹو ہو‘۔ بقول نندیتا انہوں نے پہلے ہی نواز الدین کو اس کردار کے لیے منتخب کرلیا تھا۔

نواز الدین نے بتایا کہ نندیتا کا خیال ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم و بیش ویسے ہی نشیب وفراز دیکھ چکے ہیں جیسے منٹو نے اپنی زندگی میں دیکھے۔ ’لیکن میں نندیتا کے اس خیال سے متفق نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ پچھلے 22 سال سے منٹو کو پڑھ رہے ہیں، اس کے باوجود وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ منٹو کو مکمل طور پر جان چکے ہیں۔

نواز الدین اپنی عملی زندگی کے آغاز میں منٹو پر بننے والے ایک ڈرامے کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’منٹو کے افسانے آپ کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اور جب آپ ان افسانوں کی گہرائی میں اترتے ہیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘۔

نواز الدین کا خیال ہے کہ منٹو جیسی ہمہ گیر شخصیت کا کردار ادا کرنے کے لیے انہیں بے حد محنت، مطالعہ اور کوشش کی ضرورت ہے تاہم وہ اس کی بھاری ذمہ داری خود سے زیادہ نندیتا کے کاندھوں پر دیکھتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ منٹو کو پیش کرنے کے لیے انہیں منٹو کو سمجھنا ہوگا تاکہ وہ منٹو کی شدت اور ان کے تاثرات کو پیش کر سکیں، تاہم یہ ایک مشکل کام ہے۔

واضح رہے کہ فلم سعادت حسن منٹو کی پوری زندگی پر نہیں بنائی جارہی تاہم منٹو کی زندگی کے آخری چند سال اور خاص طور پر تقسیم برٖصغیر کے وقت کے کچھ مناظر پیش کیے جائیں گے۔ اس بارے میں نواز الدین کا کہنا ہے، ’آپ منٹو کو مکمل طور پر بیان کر ہی نہیں سکتے۔ یہ تو صرف منٹو کی ذرا سی جھلک ہوگی جو ہم پیش کرنے جارہے ہیں‘۔

منٹو پر بننے والی فلم کی ہدایت کار نندتا داس اس سے قبل 2008 میں اپنی فلم ’فراق‘ پیش کر چکی ہیں جس میں نصیر الدین شاہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ فلم کی شوٹنگ رواں سال کے آخر میں ممبئی اور لاہور میں مکمل کی جائے گی۔

پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی اس سے قبل منٹو کی زندگی پر 2015 میں فلم پیش جا چکی ہے جس میں مرکزی کردار سرمد کھوسٹ نے ادا کیا تھا۔ معروف پاکستانی اداکارہ صنم سعید بھی فلم کا حصہ تھیں۔

سعادت حسن منٹو کو جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ افسانے لکھنے والوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں پیش کی جانے والی تلخ سچائی کی وجہ سے ان پر فحاشی کا الزام لگا اور ان پر مقدمات بھی چلے، لیکن یہ سب الزامات وقت کی دھول میں مٹ گئے لیکن منٹو زندہ رہا۔ بقول خود ان کے منٹو لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں ہے اور اردو ادب میں دوسرا منٹو پیدا ہونا ناممکن ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close