انٹرٹینمنٹ

میں اقربا پروری کے لفظ سے اتفاق نہیں کرتی

اقربا پروری سے صرف دروازے جلدی کھلتے ہیں

نوجوان اداکارہ درِفشاں سلیم  نے کہا کہ میں اقربا پروری کے لفظ سے اتفاق نہیں کرتی۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے ماں، باپ، بھائی بہن، ہمیشہ وہی آپ کی حمایت کرتے ہیں۔ چاہے آپ ڈاکٹر ہو، انجنئیر ہو، یا اداکار ہو۔ میں چاہوں گی کہ میری جو بھی اولاد ہو میں اس کو بہتر سے بہتر سہولت دوں۔ تو اس کے بعد وہ اولاد کیا کرے، وہ اس کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے۔ لیکن اقربا پروری والی بات پر میں یقین نہیں رکھتی۔

درِفشاں سلیم کا کہنا تھا کہ اگر صرف اقربا پروری پر ان کو کام مل رہا ہوتا تو ڈرامے ‘دلربا’ میں ان کا ایک چھوٹا کردار نہ ہوتا۔

انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ اقربا پروری کی مدد سے وہ دروازے ضرور کھل جاتے ہیں جس کے لیے دیگر لوگوں کو سال سال، دو دو سال لگ جاتے ہیں۔

مجھے اب لگتا ہے کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں آڈیشن دینا، لوگوں سے ملنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہم سب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ابھی بھی مشکلات سے گزر رہی ہوں۔ تو میرے خیال میں ایک راستہ ہوتا ہے اور ایک سفر ہوتا ہے جس سے آپ کو گزرنا ہوتا ہے، لیکن اقربا پروری کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، کم از کم میرے کرئیر میں اب تک تو نہیں۔

پاکستانی ڈراموں میں عورتوں کے کردار اور ان پر لکھی گئی کہانیوں کے بارے میں درفشاں کہتی ہیں کہ ان کے یہ لگتا ہے کہ ٹی وی ڈراموں میں چلنے والا بیانیہ عورت کا ہی ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی ہی عکاسی کر رہا ہے۔

پاکستانی ڈراموں کو اس بات پر سوچنا چاہیے کہ وہ کرداروں کی ایسی نمائندگی کریں جس کی مدد سے معاشرے میں تبدیلی لانے کے بارے میں سوچا جائے۔

ٹی وی ڈراموں پر عورتوں کے کردار کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ہم اسی عورت کو باوقار اور اچھی عورت کے طور پر دیکھتے ہیں جو سمجھوتہ کرنے پر ہر دم راضی ہو جاتی ہیں۔

ہم نے دیکھا ہی یہی ہے اپنی زندگیوں میں۔ ہمارے ڈراموں میں ہیروئن کا کردار ہمیشہ ایک مثبت کردار کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس میں اچھائی اور برائی دونوں عنصر شامل نہیں ہوتے، تو میرا یہی اختلاف ہے کہ سکرپٹ رائٹر سے یا کسی سے بھی کہ کوئی انسان صرف اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم سب ‘گرے’ ہیں۔ ہم سب میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔ ہاں کچھ میں اچھائی زیادہ ہوتی ہے۔ تو بس مجھے یہ ہوتا ہے کہ ہم سے کوئی اتنا اچھا تو نہیں ہے تو ہم کیوں ایسی نمائندگی اپنے ٹی وی پر کر رہے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ٹی وی پر ایک ‘گرے’ کردار، یعنی ایک نارمل شخص، ایک نارمل عورت کا کردار ابھی تک پیش نہیں کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ آئی ہوں لیکن بہت کم۔ کیونکہ ہم تعریف ہی اس کردار کی کرتے ہیں تو صرف رو رہی ہوتی ہیں یا وہ انھی مردوں کے پاس واپس جا رہی ہوتی ہیں جنھوں نے ان کی تضحیک کی ہوئی ہوتی ہے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ پردیس جیسے ڈراموں کے سکرپٹ میں موازنہ بھی دکھایا گیا ہے۔

اس ڈرامے میں وہ ایمن نامی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ جہاں ایک جانب زبیدہ ہے تو وہیں دوسری جانب ایمن بھی ہے اور سکرپٹ میں ان دونوں کا اچھا موازنہ کیا گیا ہے حالانکہ ایمن زبیدہ کی بیٹی ہے۔

ہمیں اس قسم کے اسکرپٹ لکھنے کی ضرورت ہے جہاں ہم دیکھیں کہ ایک عورت صرف سمجھوتہ کرنے کے لیے نہیں ہے، وہ اس سے بڑھ کر ہے۔

درفشاں سلیم نے کہا کہ ان کا خواہش ہے کہ وہ ایسے کردار نبھائیں جن میں نہ صرف معاشرے کی عکاسی ہو، بلکہ اس کی کہانی معاشرے کو سدھارنے میں بھی مدد کر سکیں

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close