انٹرٹینمنٹ

جنید جمشید کی تمام زندگی ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ کی جانب سفر سے عبارت رہی

جنید جمشید خود کہتے ہیں کہ میں فائٹر پائلٹ بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا، ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا انجینیئر بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا گلوکار نہیں بننا چاہتا تھا لیکن بن گیا

جنید گلوکاری کے پڑاؤ پر بھی نہیں رکے اس میدان میں شہرت، عزت اور دولت کمانے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر اپنی سمت بدل دی اور شوبز کی چکاچوند چھوڑ کر مذہب کی دنیا کی طرف نکل گئے۔

ان کی سیمابی فطرت نے انھیں وہاں بھی ٹکنے نہیں دیا، اور وہ واپس آ گئے۔ انھوں نے ایک فلم میں کام کرنے لیے داڑھی بھی ترشوا دی۔

البتہ ان کی واپسی مختصر مدت ثابت ہوئی اور ایک بار پھر دین کی جانب لوٹ گئے۔

اسی دوران انھوں نے جے ڈاٹ کے نام سے ملبوسات کا کاروبار بھی شروع کر دیا جو آج پاکستان کے نمایاں ترین فیشن برینڈز میں سے ایک ہے۔

جنید جمشید گلوکاری کی طرف منصوبہ بندی سے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے گلوکاری اپنے بھائی ہمایوں کی وجہ سے شروع کی۔
‘میں گٹار بجاتا تھا وہ گاتا تھا۔ جب وہ نہیں ہوتا تھا تو میں اس کے گانوں کی ریکارڈنگ مسلسل سنا کرتا تھا، اور ساتھ ساتھ گاتا رہتا تھا۔ اس طرح میں بھی گانے لگا، حالانکہ اس کی آواز مجھ سے کہیں اچھی ہے۔’

اسی اتفاقیہ گلوکار پر موسیقار روحیل حیات کی نظر پڑ گئی، جنھوں نے جنید کو اپنے ساتھ گانے کی دعوت دی۔ بقول ان کے مجھے ’شروع ہی میں بےحد تخلیقی گروہ مل گیا جس میں سلمان احمد، روحیل حیات، شہزاد، نصرت حسین، رضوان الحق شامل تھے۔ میں ان سب کو اپنا گرو مانتا ہوں۔‘

یہ بھی پڑ ھیں : گلوکار علی عظمت نے میڈم نورجہاں کی شخصیت پر تنقید

اس گروہ کی صحبت میں جنید جمشید کی وہ تربیت ہوئی جس نے نامور موسیقار سہیل رعنا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا: ‘میں نے اپنی پروفیشنل زندگی میں تم جیسا ‘فینامنا’ نہیں دیکھا۔’ ان نوجوانوں کا قائم کردہ میوزک بینڈ کو بڑی آسانی سے پاکستان کا مقبول ترین میوزک بینڈ کہا جا سکتا ہے۔

ان کے گرو شعیب منصور نے انھیں واپس لانے کی بڑی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن جنید کا دل اب گلیمر کی دنیا سے اوب چکا تھا۔ اس بات نے شعیب کو اس قدر سیخ پا کیا کہ انھوں نے اسی موضوع کو اپنی پہلی فلم ’خدا کے لیے‘ میں بھی چھیڑا۔

سنہ 2014 میں حالات اس نہج پر پہنچے کہ ایک پروگرام میں وعظ کرتے کرتے انھوں نے کچھ ایسے کلمات ادا کر دیے کہ ان کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔

جنید نے معافی تو مانگی لیکن ملک میں مذہبی جذبات ان کے خلاف بھڑک چکے تھے، اس لیے انھیں کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا۔

جب وہ واپس آئے تب بھی لوگوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ سنہ 2015 برس ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی جس میں چند لوگوں کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ان پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close