Featuredپنجاب

فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربے کےعلاوہ کچھ بھی نہیں

عدالتی بائیکاٹ کرنے والے تحمل کا مظاہرہ کریں 

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کا کہنا ہے کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربےکےعلاوہ کچھ بھی نہیں، ہم گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں۔
 
   سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف پرویزالٰہی درخواستوں پرسماعت جاری ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
 
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا، دوست مزاری کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرےموکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا ہم فل کورٹ کےحوالےسےفیصلےپرنظرثانی دائرکرینگے۔
 
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نےبھی کارروائی کےبائیکاٹ سےآگاہ کیا تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کےفریق ہی نہیں؟۔
 
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربےکےعلاوہ کچھ بھی نہیں، ستمبرکےدوسرے ہفتےتک فل کورٹ دستیاب نہیں ,ہماری ترجیح اس معاملےکوجلد ازجلدنمٹانا ہے۔
 
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دےسکتا ہے؟ آئین پڑھنےسے واضح ہےکہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، اس سوال کے جواب کیلئےکسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، یہ ایسا سوال نہیں تھا جس پرفل کورٹ تشکیل دی جاتی۔
 
چیف جسٹس نےدوران سماعت ریمارکس دئیے کہ فریقین کےوکلا کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا، صدرکی سربراہی میں انیس سو اٹھاسی میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نےکالعدم قراردی تھی، اس پرعدالت کا مؤقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی۔
 
چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ دلائل کے دوران اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا، اکیسویں ترمیم والےفیصلےمیں آبزرویشن ہےکہ پارٹی سربراہ ووٹ کی ہدایت کرسکتاہے،آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا؟، تشریح کےوقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا، کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائےکی سپریم کورٹ پابند ہوسکتی ہے؟۔
 
عزت مآب چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل63اےپرفیصلہ نو رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا،عدالتی بائیکاٹ کرنیوالے تحمل کا مظاہرہ کریں،بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں۔
 
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل63 اے کیس میں ہدایات پر کسی وکیل نےدلیل نہیں دی تھی، عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمنٹری پارٹی ڈائریکشنز پرمعاونت درکارہے۔
 
چیف جسٹس کی وکیل علی ظفرکو ہدایت کی کہ سوالات پرمعاونت کریں یا پھرہم بینچ سےالگ ہوجائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کوعبادت کا درجہ دیتا ہوں۔
Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close