Featuredاسلام آباد

خیبر پختونخوا اور پنجاب میں عام انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

پنجاب ( Punjab ) اور خیبرپختونخوا ( Khyber Pakhtunkhuwa ) میں عام انتخابات ( General Elections 2023 ) میں تاخیر سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان ( Supreme Court of Pakistan ) کی جانب سے لیا گیا ازخود نوٹس ( Suo Motu ) پر محفوظ فیصلہ آج بروز بدھ یکم مارچ کو11 بج کر 20 منٹ پر سنا دیا گیا۔

فیصلے میں کیا کہا گیا؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

ازخود نوٹس پر محفوظ کیا گیا فیصلہ 3-2 کے تناسب سے دیا گیا ہے۔

جسٹس منظور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیال نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے محفوظ کیے گئے فیصلے میں حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں عام انتخابات کرائے جائیں۔

آئین عام انتخابات سے متعلق وقت کا تعین کرتا ہے۔

اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازمی ہے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔

گورنر آرٹیکل 112کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 222کہتا ہے کہ انتخابات وفاق کا معاملہ ہے۔

گورنر کو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیئے گئے ہیں۔

پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی۔

پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی۔

خیبر پختونخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی۔

اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی خود کرسکتا ہے۔

اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔

الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے۔

انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے۔

گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا۔

الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے۔

الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔

عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے۔

9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔

وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے۔

عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمانی جمہوریت آئین کا “ Silent Feature “ ہے۔

بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔

عام انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔

– اختلافی نوٹ
ازخودنوٹس لینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

ازخودنوٹس جلد بازی میں لیا گیا۔

ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

معاملہ ہائیکورٹس میں تھا تو سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے سکتی تھی۔

لاہور ہائیکورٹ پہلے ہی مقدمہ کا فیصلہ کرچکی ہے۔

ہائیکورٹس میں معاملہ ازخود نوٹس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔

ہائیکورٹس زیرالتواء مقدمات کا جلد فیصلہ کریں۔

ازخود نوٹس کے موقع پر کمرہ عدالت میں وکلا اور سیاسی رہنماؤں کی بڑی تعداد موجود رہی۔ میڈیا نمائندگان کی بھی بڑی تعداد فیصلہ سننے کیلئے عدالت میں موجود تھی۔ دیگر افراد میں درخواست گزار اور ان کے وکلا بیرسٹر علی ظفر، فیصل چوہدری ،شعیب شاہین و سینیر وکلا بھی موجود تھے، جب کہ شیریں مزاری ،شیخ رشید ،فواد چوہدری سمیت کئی سیاسی رہنما بھی اس موقع پر فیصلہ سننے پہنچے تھے۔

گزشتہ روز 28 فروری بروز منگل چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس میں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ازخود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری

از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

ازخود نوٹس کی ابتدائی طور پر 22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر سماعت کے لیے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے گیا تھا، تاہم 24 فروری کو 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت مکمل کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے سماعت سے معذرت کرلی گئی تھی۔ اس اہم از خود نوٹس کی کُل چار سماعتیں ہوئیں۔

پہلے روز کی سماعت اور اہم نکات

عدالت نے اسمبلی کی تحلیل پر سوال اٹھادیا

اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہوسکتی ہیں؟ جسٹس منصور

یہ ازخود نوٹس نہیں بنتا: جسٹس جمال مندوخیل

انتحابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے: چیف جسٹس

صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر بھی نوٹس لیا جائے: جسٹس اطہر

نمائندے 5 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں تو کسی شخص کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل کیسے ہوسکتی ہے؟ سپریم کورٹ

دوسرے روز کی سماعت اور اہم نکات

فاروق نائیک نے پی ڈی ایم جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان پڑھ کر سنایا۔

پی ڈی ایم کا جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر پر اعتراض

آج ہمارے دروازے پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے اس لیے ازخود نوٹس لیا: چیف جسٹس

سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے،جسٹس جمال مندوخیل

تیسرے روز کی سماعت اور اہم نکات

ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے 9 رکنی بینچ سے 4 ججز علیحدہ

چیف جسٹس نے بینچ کی ازسر نو تشکیل کرکے اسے 5 رکنی کردیا

پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے: چیف جسٹس

اگر انتخابات کیلئے حالات سازگار نہیں تو وجوہات بتائی جائیں:چیف جسٹس

بعض حالات میں الیکشن کی تاریخ دینا گورنر اور بعض میں صدر کی ذمہ داری ہے: جسٹس منیب

میری رائے میں گورنرکی صوابدید یہ ہےکہ فیصلہ کرے اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں: جسٹس منصور

کوئی ایسی آئینی شق نہیں جو الیکشن میں90 دن کی تاخیرجسٹیفائی کرے:جسٹس مظہر

چوتھے روز کی سماعت اور اہم نکات

صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں، چیف جسٹس پاکستان

الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنرکا ہے، وزیراعلیٰ کا نہیں: صدر سپریم کورٹ بار

آرٹیکل48 کے مطابق صدرکا ہرعمل حکومت کی سفارش پر ہوگا:جسٹس جمال

صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن57 ختم کیوں نہیں کردیتے؟ جسٹس مظہر

پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے: وکیل الیکشن کمیشن

صدر نے کے پی الیکشن کی تاریخ دیکر آئینی اختیار سے تجاوز کیا: عارف علوی کے وکیل کا اعتراف

ازخود نوٹس لینا میرا دائر اختیار ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

عدالت عظمیٰ کا آج سامنے آنے والا فیصلہ طے کرے گا کہ صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کی صورت میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، گورنر پنجاب اور خیبر پختونخوا، یا الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سے کس آئینی ادارے کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا چاہیے۔

گزشتہ روز پورے دن جاری رہنے والی سماعت کے بعد بینچ نے تقریباً 5 بج کر 15 منٹ پر مختصر حکم سنانے کا اعلان کیا، تاہم بعد ازاں فیصلہ آج بروز بدھ یکم مارچ تک محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

 

عبوری حکم نامہ
سماعت کے آغاز سے قبل سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ہونے والی سماعت کا عبوری حکم نامہ جاری کردیا۔ 9 ججز پر مشتمل بینچ کو گزشتہ روز صبح ساڑھے 11 بجے سماعت کا آغاز کرنا تھا لیکن بینچ کی تشکیل نو کے بعد کارروائی بالآخر دوپہر ڈیڑھ بجے دوبارہ شروع ہوئی۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس
22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کردی گئی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا، جس میں سینر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں۔

3 سوالات
قبل ازیں از خود نوٹس پر سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ازخود نوٹس 3 سوالات پر لیا جائے گا۔

پہلا یہ کہ اسمبلی تحلیل ہونے پرالیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟

انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اخیتار کب اور کیسےاستعمال کرنا ہے؟

آخری اور اہم سوال وفاق اور صوبوں کے عام انتخابات کے حوالے سے ذمہ داری کیا ہے؟۔

صدر کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان
واضح رہے کہ رواں ماہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت 9 اپریل بروز اتوار کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔

خط میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے اور چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں لہٰذا سیکشن 57 ایک کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

صدر عارف علوی نے لکھا تھا کہ آئین کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے، آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے، الیکشن کمیشن بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا، دونوں آئینی دفاتر اردو کی پرانی مثل ’پہلے آپ نہیں، پہلے آپ‘ کی طرح گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈال رہے ہیں، اس طرزِ عمل سے تاخیر اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close