Featuredاسلام آباد

صدر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انہوں نے غلط حکم دیا تھا ، وزیر قانون

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی گورنرز نے نہیں، بلکہ صدر مملکت نے کی ہے۔ صدر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انہوں نے غلط حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے باہر یکم مارچ بروز بدھ میڈیا سے گفتگو میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فیصلے پر نظرثانی درخواست کی ضرورت نہیں، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی درخواست کی ضرورت نہیں ہوتی، 2 ججز نے پہلے ہی معاملے کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا، ہمارامؤقف ہے کہ پٹیشن 3-4سے رد ہوگئی ہے۔ 2 ججز پر کچھ جماعتوں کے وکلاء نے اعتراض کیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعتراضات پر 2 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا تھا، باقی 7 ججز میں سے 2 نے پہلے درخواستیں خارج کی تھیں، چیف جسٹس نے نیا بینچ تشکیل دیتے ہوئے دیگر 5 ججز کو شامل کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کی تاریخ ماضی میں بھی آگے پیچھے ہوتی رہی ہے، تاہم یہ ضرور ہے کہ انتخابات جب بھی ہونگے، ہم حصہ لیں گے۔ دیگر کورٹس میں جاری سماعت پر اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹس اپنی سماعت جاری رکھیں گی، ہائیکورٹس میں مقدمات زیرالتواء ہیں وہ اس کی تشریح کریں گی۔

صدر پر تنقید کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی گورنرز نے نہیں، صدر نے کی ہے۔ صدر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انہوں نے غلط حکم دیا تھا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان شہزاد الہیٰ نے کہا کہ فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ فیصلہ بہت واضح ہے اور کوئی ابہام بھی نہیں ہے، یہ کوئی ہار جیت یا اہلیت اور نااہلی کا کیس نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک آئینی نکتے پر بحث ہوئی جس میں 2 جج صاحبان نے خود کو رضاکارانہ طور پر بینچ سے علیحدہ کرلیا، 7 جج صاحبان میں سے 2 جج صاحبان 23 تاریخ کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے کہ ہم ان پٹیشنز کا خارج کرتے ہیں، یہ قابل سماعت نہیں ہیں۔ شہزاد الہیٰ کے مطابق ہم نے اس کارروائی میں مکمل تعاون کیا، کوئی تاریخیں نہیں مانگیں۔

انہوں نے کہا کہ حقائق سب کے سامنے ہیں، معاملہ 9 رکنی بینچ سے شروع ہوا اور 5 رکنی بینچ تک آگیا، جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے 23 فروری کو ہی اپنے نوٹ میں ان دونوں پٹیشنز کو مسترد کردیا تھا۔ 5 رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اس کیس کے ریکارڈ میں 5 نہیں 7 ججز صاحبان کے فیصلے موجود ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روز میں ہونا ہیں، پارلیمانی جمہوریت میں انتخابات اہم عنصر ہیں۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا یہ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا کی حد تک گورنرانتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، اگرگورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن فوری صدرمملکت سے مشاورت کرے، 9 اپریل کوانتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ تجویز کرے، پنجاب کے الیکشن کی تاریخ صدرِ مملکت دیں گے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، گورنر کے پی صوبائی انتخاب کی تاریخ کا اعلان کریں، الیکشن ایکٹ کے 57 اور 58 کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ دی جائے۔کے پی کے انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے آج مختصر فیصلہ جاری کیا گیا ہے، تفصیلی فیصلہ بند میں جاری کیا جائے گا، فیصلے کے مطابق آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، جنرل انتخاب کا طریقہ کار مختلف ہے

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close