Featuredبلاگ

محمدﷺ سراپارحمت ہی رحمت

وہﷺ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔۔۔۔۔

 آپﷺ کا وجودِ عالمین کے لئے سراپارحمت ہی رحمت ہے۔

بجھ گئیں جس کے آگے سب مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبیﷺ
سب سے اولیٰ و اعلی ہمارا نبیﷺ
سب سے بالا و والا ہمارا نبی ﷺ

آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ لامحدود کا سب سے بہترین مظہر ہیں۔جس طرح آپ ﷺ کی ذات برکت کا سبب ہے۔بالکل ایسے ہی آپ ﷺ کی سیرت و کردار بھی بے پناہ برکات کا حامل ہے۔اس لیے آپ ﷺ کی اتباع کرنے والا دنیاوی و اخروی خیر کا مستحق ہے۔

یوں تو ربّ کریم کے بھیجے ہوئے ہر نبی علیہ الصلوة والسلام عظیم ہیں اور ان کی تعلیمات کا ماخذ بھی وہی ہے جو آپ ﷺ کی تعلیمات کا ہے مگر اس کے باوجود یہ بات بہت ذمہ داری سے کہی جا سکتی ہے کہ صرف آپ ﷺ کی اتباع ہی سے وہ برکات سمیٹی جا سکتی ہیں جن کا ربّ کریم نے وعدہ فرمایا ہے۔اور انسانیت صرف آپ ﷺ کے پیغام کی محتاج ہے۔اس بارے میں فطری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ صرف نبی ﷺ کی سیرت ہی کیوں؟ کسی اور نبی علیہ الصلوة والسلام کی ذات برکات کی تعلیمات و پیغام کیوں نہیں؟

مولانا مودودی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔

“یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ علم کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،جس نے اس کاٸنات کو بنایا ہے اور اس میں انسان کو پیدا کیا ہے۔اور اس کے سوا کائنات کی حقیقتوں کا اور خود انسانی فطرت اور اس کی حقیقت کا علم اور کس کو ہو سکتا ہے؟خالق ہی تو اپنی مخلوق کو جان سکتا ہے۔مخلوق اگر کچھ جانے گی تو خالق کے بتانے ہی سے جانے گی۔اس کے پاس خود اپنا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے،جس سے وہ حقیقت جان سکے”۔

حیات مبارکہ حضرت محمد ﷺ

آپؑ کی آمد کی اطلاع حضرت آدم علیہ السلام سے  حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اپنی امتوں کو دے چکے تھے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے بعدارض وسماء کے روحانی تعلق اور رشتۂ وحی کو منقطع ہوئے کم وبیش 6 سو سال گزر چکے تھے۔ انسان کا ضمیر مرجھا چکا تھا، تاریکیوں نے ہر پہلو سے بنی آدم کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور روشنی کی کوئی کرن دُور دُورتک نظر نہیں آتی تھی۔

خالق ِکائنات ،مالکِ ارض وسماء کو اپنی اس مخلوقِ انسانی کے حال پر ترس آگیا۔ رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور اس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کی رہنمائی کے لئے اولادِ ابراہیم خلیل علیہ السلام اور نسلِ اسماعیل ذبیح علیہ السلام سے نبی آخرالزمان رحمت للعالمینﷺ کو پیدا فرمایا۔

پیغمبر حضرت محمدمصطفی احمد مجتبیﷺ عرب کے مشہور قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؑ کے پردادا کا نام حضرت ہاشم ہے اس لیے ہا شمی کہلا تے ہیں ۔ آپؑ کے والد ما جد کا اسم گرامی حضرت عبدا للہ اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ حضرت آمنہؓ ہے۔

آپؑ ابھی والدہ صاحبہ کے بطن مبارک میں تھے کہ والد محترم حضرت عبد اللہ بغرض تجارت ملک شام گئے واپسی پر بیمار ہو گئے اور اپنے سسرال کے ہاں مدینہ طیبہ ٹھہر گئے وہیں آپ کا انتقال ہو گیا۔ اور قبر مبارک مدینہ طیبہ میں ہی بنی۔

آپؑ والدہ صاحبہ کے بطن مبارک میں تھے تو انہیں اللہ تعالی کی طرف سے بہت سی غیبی بشارات دی گئیں۔ بہت سے عجائبات دیکھنے میںآ ئے۔ جب دھوپ میں چلتی تھیں تو بادل سایہ فگن ہو جا تا تھا ۔ نو کیلے پتھر اور کا نٹے موم کی طرح نرم ہو جاتے تھے۔ خواب میں اللہ کے فرشتے بشا رت دیتے کہ اے سیدہ آ منہؓ تیرے بطن مبارک میں وہ بچہ ہے جو اولین آخرین کاسردار ہے۔

آپؑ کی پیدائش کے سال وہ مشہور واقعہ فیل جس میں یمن کا سردار ابرہہ بیت اللہ شریف کو منہدم کر نے کے ارادے سے آ یا تھا اور ابا بیلوں نے کنکر برسا کر اس کے ہا تھیوں کو تباہ و بربار کر دیا تھا، پیش آ یا تھا ۔ آپؑ مشہور قول کے مطا بق 12ربیع الاول بروز سوموار بوقت صبح صادق مطابق اپریل 570ء واقعہ فیل کے پچاس یا پچپن روز بعد  پیدا ہوئے۔

آپؑ کی پیدائش کے وقت پورا گھر نور سے منور ہو گیا۔اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آسماں کے ستا رے زمیں کی طرف جھکتے ہیں اور اٹھتے ہیں۔جو در اصل آپ کی خدمت میں سلام پیش کر رہے تھے۔جس دن پیدا ہو ئے آپؑ کے دادا بیت اللہ شریف کے سا ئے میں اپنے بیٹوں اور دوسرے معززین کے سا تھ تشریف فرما تھے

آپﷺ کی ولادت کے بعد سیّدہ آمنہ نے آپؑ کے دادا عبدالمطلب کو پیغامِ مسرت بھیجا، وہ خوشی خوشی گھر آئے۔ اپنے عنفوانِ شباب میں داغِ مفارقت دے جانے والے بیٹے کی نشانی کو گود میں لیا اور خانہ کعبہ میں لے گئے،وہاں دعا ء مانگی اور واپس لائے،  دادا نے ہی اپنے اس دُرِّیتیم کا نام محمد رکھا  اور والدہ صاحبہ نے احمد ﷺ رکھا۔یہ دونوں نام کتب سما ویہ میں موجود تھے۔جب پیدائش مبارک کی اطلاع داداجان کو ملی، وہا ں ایک بہت بڑے تورات کے عالم بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی آپکی زیارت کی خواہش کی جب جناب ابو طالب کے گھر آپ کو دیکھا تو دائیں کندھے پر مہر ختم نبوت دیکھ کربے ہوش ہوگیا۔ ہوش آ نے پر کہا کہ آ ج نبوت بنو اسحق سے نکل کر بنواسماعیل میں چلی گئی۔

ولادت باسعادت کے روز بہت سی برکات و عجائبات کا ظہور ہوا۔ یہود و نصاری کے علماء نے اعلان کیا کہ آج کی رات نبی آخر الزمان کا ظہور ہو گیا ۔

آپؑ کی عمر مبارک کا چھٹا سال تھا کہ والدہ صاحبہ کے ہمراہ مدینہ واپس مکہ مکرمہ تشریف لا رہے تھے کہ مقام ابوا پر ماں کے سایہ سے محروم ہوگئے۔اسی مقام پر مہربان ماں کی قبر مبارک بنی۔ پیارے دادا عبدالمطلب نے بے حد محبت سے پالا اس عمرمیں بھی آپ سے کئی عجائبات کا ظہور ہؤا۔ ایک دفعہ آنکھوں میں سخت آ شوب ہو گیا ۔علاج سے کچھ فائیدہ نہ ہوا تو جناب عبدالمطلب ایک راہب کے پاس دم کرانے لے گئے اس نے آپؑ کو دیکھا تو ادب سے دو زانوں ہو گیا اور کہنے لگا عبدالمطلب اپنے پو تے سے کہو اپنا ہی لب اپنی آ نکھوں میں لگا لے۔ جب ایسا کیا گیا تو اسی وقت شفاء ہو گئی۔ ایک دفعہ مکہ مکرمیں قحط پڑا تو جناب عبدالمطلب نے آپ کے توصل سے بارش کی دعا کی تو پورا علاقہ جل تھل ہو کر سر سبز و شاداب ہو گیا ۔ آٹھ سال کی عمر میں داد محترم کا سایہ بھی اٹھ گیا۔ پھر مہربان چچا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ کے والد محترم ابو طالب نے اپنی کفالت میں لے لیا اور زندگی بھر جان نچھاورکرتے رہے۔

حضور اکرم ﷺ اپنی فطرت سلیمہ کے تحت مکہ کے ما حول سے الگ تھلگ رہنے کے لئے جبل نور پر و اقع غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ اور وہیں کئی کئی روز اللہ کی عبادت میں مصروف رہ کر وا پس تشریف لا تے ۔ جب عمر مبارک چا لیں برس ہو گئی تو ایک روز غار حرا میں یاد خدا وندی میں مصروف تھے کہ اچا نک اللہ تعالی کا برگزیدہ فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام ظا ہر ہوا اور آپؑ سے فرمایا کہ آپؑ اللہ تعالی کے آ خری سچے رسول ہیں ۔آپؑ کو مخلوق خدا کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی کی طرف سے آپؑ پر وحی کا سلسلہ جاری ہو گیا ہے

حضور اکرمﷺغار حراسے اٹھے اور سیدھے اپنے گھر تشریف لا ئے اور اہلیہ محترمہ ملکہ جنت سیدہ خدیجۃ الکبریؓ کو فرمایا مجھ پرکملی اوڑھادیں۔پھر سارا ماجرہ سنایا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ فورا سمجھ گئیں جوخواب میں نے پندرہ سا ل پہلے دیکھا تھا اور جس امید پر نکاح کیاتھا اللہ نے آج اسے حقیقت بنا دیا۔عظمت والی خا تون اپنے چچا زاد بھائی تورات و انجیل کے مہتم بالشان عالم دین حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے قصہ سن کر فورا بشارت دی اے خدیجۃ الکبریؓ تجھے مبارک ہو کہ آپ کا شوہر اللہ کا سچا رسول ہے۔اور یہ وہی فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام تھا جو حضرت موسی علیہ السلام پر آ یا کرتا تھا۔حضرت ورقہ بن نوفل کی گفتگو سن کر سب سے پہلے خوش نصیب سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ نے آپ کا کلمہ پڑھ کر اول المسلمات کا شرف پالیا۔

پھر دعوت تبلیغ کا سلسلہ تین سال تک خاموشی سے چلتا رہا۔ آ خر سورہ شعراء کی آ یت نمبر 215 نازل ہوئی۔ جس میں حکم دیا گیا: میرے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے خوف سے ڈرائیے۔ جس پر آپؑ نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور جس میں چالیس اقرباء شریک ہوئے۔ دعوت کا اہتمام حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ کے ذمہ تھا ۔ آپؑ نے بحیثیت اللہ کے رسول کے تعارف کرایا اور دین کی دعوت دی۔ جس پر ابو لہب جذبات میںآ گیا اورآپؑ کی اعلانیہ تردید کر کے رشتہ دا روں کو اٹھا کرلے گیا ۔

آپؑ نے اگلے روز نے کوہ صفا پر چڑھ کر قبا ئل قریش کو پکا را جو ابھی تک اس پیغام سے نا وا قف تھے۔ آپؑ کی صدق و سچا ئی امانت و دیانت ہردل میں بسی ہوئی تھی۔ آواز سنتے ہی پورا مکہ مکرمہ ا مڈ آ یا ۔وہاں آپؑ نے سب سے قبل اپنی چالیس سالہ زندگی کے بارے میں پو چھا لوگوں نے صادق و امین کے نعرے لگا ئے کہ فضاء گونج اٹھی تب آپؑ نے اعلان نبوت اور مقصد آ مد بیان فرمایا ۔ بد بخت چچا ابولہب گستا خی پر اتر آ یا اور آپؑ کو پتھر مارا۔ مجمع میں شور مچ گیا اور اسی طرح لوگ تتر بتر ہو گئے۔ بعد ازاں آپؑ نے ہرگلی ہر کوچے اور خانہ کعبہ میں عام دعوت دین کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ کفار مکہ نے ہر ممکنہ رکاوٹ ڈالی۔ لوگوں نے دعوت حق سے روکنے کے لئے جناب ابو طالب سے ملاقات کر کے ہر قسم کا لالچ دینا چاہا جسے آپؑ نے حقا رت سے ٹھکرا دیا۔جس پر کفار ظلم و ستم پر اتر آ ئے یہ سلسلہ مسلسل تیرہ سال جا ری رہا ۔

عام الحزن مکہ کی زندگی میں انتہائی پریشانی کا سال تھا اس سال محسنہ کائنات سیدہ خدیجۃ الکبری اور محسن نبوی جناب ابی طالب کا انتقال ہوگیا۔ اسی سال پھر آپؑ نے طائف کاسفر فرمایا جہاں سرداروں نے آپؑ سے بہت زیادتی کی۔

آپﷺ کو کفار سے متعدد جنگیں کرنا پڑیں ۔جن جنگوں میں بنفس نفیس سرکاردوعالم ﷺ شامل ہوئے ان کو غزوات کہتے ہیں۔ ان کی تعداد 23 ہے۔ جن جنگوں میں رحمت عالم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو روانہ فرمایا انہیں سریات کہتے ہیں۔ ان کی تعداد 44ہے۔6 ہجری میں آپﷺنے عمرہ کا ارادہ فرمایا کفار نے راستے میں روک دیا۔آخر مذاکرات ہوئے اورایک صلح نامہ تحریر ہوا جسے صلحہ حدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 7 ہجری میں غزوہ خیبر ہوا ۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہودیوں کے مقابلے میں فتح مبین دی۔ اس جنگ کے بعد جزیرہ عرب سے یہودیوں کا زور ختم ہوگیا۔ دس مضان المبارک ہجری8 میں حضور اکرم ﷺ10 ہزار قدسیوں کو لیکر فتح مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔اور حکمت عملی سے بغیر کسی خون خرابے سے اس مقدس شہر پر قبضہ فرمالیا۔مکہ والوں کو عفو عام دیدیا۔ بیت اللہ شریف کو بتوں سے پاک کردیا گیا۔ حضرت بلال سے بیت اللہ شریف کی چھت پر اذان دلواکر اللہ پاک کے نام کو بلند کردیا۔

مکہ فتح ہوتے ہی عرب کے تمام کفار میں ہلچل مچ گئی۔ 25 ذیقعد 10 ہجری کو مدینہ طیبہ سے حج کی نیت سے روانہ ہوئے۔ 4 ذولحج کو مکۃ المکرمہ پہنچے۔ 8 ذولحج کو منیٰ تشریف لے گئے۔ 9 ذولحج کو عرفات کے میدان میں خطبہ حجۃ الوداع دیا ۔سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3جس میں تکمیل دین کی بشارت ہے، اسی وقت نازل ہوئی۔
جب دنیا میں تشریف لانے کا مقصد پور ہوگیا اور دین مکمل ہوگیا تو آپﷺکوسفرآخرت کی تیاری کے لیے اشارہ دیدیا اس وقت آپﷺکی عمر مبارک 63 برس تھی۔

  تحریر میں اگر کہیں کوئی کمی و کمزوری ہے تو میں اپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہوں

 

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close