Featuredبلاگ

امریکی امن منصوبہ کی حقیقت

امریکی امن منصوبہ کی حقیقت

کیا واقعی یہ کوئی امن کا پلان ہے؟ یا فقط نام نہاد امن ہے؟۔

نام نہاد امن منصوبہ امریکی حکام کی دنیا میں شکستوں کی پردہ پوشی کی ناکام کوشش ہے۔

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں میڈیا کے سامنے ایک امن منصوبہ کا اعلان کیا ہے جس کو مغربی ذرائع ابلاغ پر مغربی ایشیاء کے لئے امن پلان کا نام دے کر تشہیرکی گئی۔در اصل یہ امن پلان کیا ہے؟ کیا واقعی یہ کوئی امن کا پلان ہے؟ یا فقط نام نہاد امن ہے؟۔اس طرح کے کئی اور سوالات ہیں جو دنیا بھرکے سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم سوشل میڈیا پر اٹھا رہے ہیں۔اس طرح کے متعدد سوالات اس لے بھی جنم لے رہے ہیں کہ امریکی صدر نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ بیٹھ کر دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلہ کو امن منصوبہ کا نام دیا ہے۔
حقیقت میں یہ امن منصوبہ کسی طرح ہو ہی نہیں سکتا۔جس خطہ کی بات امریکی صدر ٹرمپ نے کی ہے یہاں تو پہلے ہی امریکی حکومت دہشتگردی کا بازار گرم کر چکی ہے اور اب امن کی کیسی باتیں ہیں یہ؟ اس نام نہاد امن منصوبہ میں جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سامنے آئی ہے وہ مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی حکام کا صہیونیوں کو خوش کرنے کا پلان ہے کہ جس کو صدی کی ڈیل کہا جا رہاہے۔ صدی کی ڈیل کا نام سننے والے یا پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔دراصل سنہ2017ء کے آخری ایام میں ہی اس ڈیل کا تصور سامنے آنا شروع ہو گیا تھا جب امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر نے یورپ سمیت عرب ممالک کے دورہ جات کئے اور حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ جب امریکہ صدی کی ڈیل کا اعلان کرے تو اس وقت یور پ سمیت عرب ممالک سے بھی اس کی حمایت میں آواز بلند ہونی چاہئیے۔سنہ 2018ء میں صدی کی ڈیل کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر مقالہ جات اور رپورٹس نشر ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکی صدر نے اس ڈیل کے تحت مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے شہر یروشلم کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے ڈالا۔ امریکی صدر کے اس احمقانہ اعلان کے بعد دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک نے امریکی اقدامات کی شدید مذمت کی اور اس اعلان کو مسترد کیا۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اس کو مسترد کیا تھا۔البتہ امریکہ کے کچھ عرب اتحادیوں نے اس اعلان کی حمایت میں ڈھکی چھپی بات کرتے ہوئے القدس شہر کی تقسیم کی بات کی تھی تاہم فلسطینی باشندوں نے فلسطین کے اندر اور باہر ہر جگہ اس اعلان کی مخالفت کی اور اسے صدی کی ڈیل کا حصہ قررار دیا تھا۔بعد ازاں امریکی صدر نے اپنی حماقت کو مزید جہالت میں بدلنے کے لئے امریکی سفارتخانہ کو القدس شہر میں منتقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ شہر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بن جائے گا۔لیکن دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف احتجاج اور فلسطینیوں کی مزاحمت نے اس مقصد کو بھی کافی حد تک ناکام بنائے رکھا ہے۔
آئیے اب ذراامریکی صدر کی ایک اور حماقت یعنی نام نہاد امن منصوبہ کی بات کر تے ہیں۔امن کی بات امریکی صدور کی زبان سے عجیب سی محسوس ہوتی ہے۔کیونکہ دنیا بھرمیں جہا ں کہیں بھی نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ہر طرف امریکی سامراج کی شیطانی چالوں اور دہشت گردانہ عزائم ہی نظر آتے ہیں۔ عراق، افغانستان، ویت نام، ہیروشیما، ناگا ساکی، ماضی میں پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ، لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ امریکی حکومت کا تعصبانہ رویہ، کوریا کے ساتھ بدمعاشی، ایران کے خلاف امریکہ کی معاشی دہشت گردی سمیت فلسطینیوں پر ہونے والے صہیونی مظالم کے لئے اسرائیل کو امریکی ایندھن کی فراہمی اور حال ہی میں بغداد ائیر پورٹ پر ایران کے ایک مایہ ناز جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی فورسز کے اعلی کمانڈر ابو مہدی کو دہشت گردانہ کاروائی میں شہید کیا جانا،مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی حکومت کی ریاستی دہشت گردی پر امریکی امن کے پلان کی آنکھیں تاحال بند کی بند ہیں۔عرب دنیا کے ممالک کو بلیک میل کر کے امریکی حکومت ان کے وسائل کو ہڑپ کر رہی ہے، داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بنا کر امریکہ نے دنیا میں کون سا امن قائم کیا ہے؟ یہ سب کی سب باتیں امریکہ کے دہشت گردانہ عزائم کی کھلی عکاسی کرتی ہیں اور یہی وجہ ہیکہ دنیا امریکی صدر کی زبان سے امن امن کی بات سن کر یقین کرنے سے قاصر ہیں۔آدھی سے زیادہ دنیا میں امریکی حکومت کی بدمعاشیوں سے دنیا کے انسان امریکہ حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔کیا ایسے حالات میں کہ جب ہر طرف دہشت گردی کی جڑیں امریکی حکومت کے ساتھ مل رہی ہوں کوئی ذی شعور اس بات کا یقین کر سکتا ہے کہ امریکی صدر کی زبان سے امن پلا ن کا اعلان کیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ اٹھائیس جنوری کو اعلان ہونے والے امریکہ کے نام نہاد امن پلان کو شدید مزاحمت اور تنقید کا سامنا ہے اور حقیقت میں یہ پلان اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کے تحفظ کے لئے ترتیب دیا گیا ہے جو کہ کسی صورت قابل عمل نہیں ہو پائے گا۔
امریکہ کے امن منصوبہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکی نام نہاد امن پلان حماقت اور خباثت پر مبنی ہے جس کا مقصد ایک طرف مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کی جعلی ریاست کا تحفظ ہے تو دوسری طرف غرب ایشیائی ممالک سمیت جنوب ایشیائی ممالک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔امریکی صدر کا یہ نام نہاد امن منصوبہ نہ تو انکی زندگی میں کبھی عملی جامہ پہن سکتا ہے او ر نہ ہی ان کے موت کے بعد کبھی عملی ہو پائے گاکیونکہ حقیقت میں امریکہ نے امن کے نام پر دنیا کے کئی ممالک کی تباہی کا منصوبہ تشکیل دیا ہے جو فلسطین کی مقدس سرزمین کے بعد دیگر ممالک سے منسلک ہے۔بہر حال غرب ایشیائی ممالک کے سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ امریکی صدر ایک کے بعد ایک حماقت کر کے صرف اور صرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں بھی ان کو دوبارہ صدر منتخب کیا جائے جو کہ حماقت در حماقت ہے۔مبصرین کاکہنا ہے کہ امریکی صدر کا نام نہاد امن پلان جن ممالک کے بارے میں پیش کیا گیا ہے وہ اس لئے بھی ناکامی کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ امریکی صدر نے فقط صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیرا عظم نیتن یاہو کے ساتھ اس پلان کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر ممالک اس منصوبہ کا حصہ ہی نہیں ہیں۔تاہم یہ نام نہاد امن منصوبہ اپنی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے غرب ایشیائی ممالک اور جنوب ایشیائی ممالک میں امریکی منصوبوں کو تیزی سے شکست کا سامنا ہو رہاہے۔عین الاسد پر ایران کا حملہ ہو یا پھر امریکی جہاز کا افغانستان میں پراسرار انداز میں گرادیا جانا ہو اس طرح کے متعدد واقعات اور خاص طور پر عراق اور شام میں امریکی حمایت یافتہ گروہ داعش کا خاتمہ سب کے سب امریکی شکست کے پنے ہیں اور اس شکست کو چھپانے کے لئے دنیا کے سامنے امریکی حکام نت نئی چالوں اور بہانوں کا سہارا لے رہے ہیں

حالیہ نام نہاد امن منصوبہ بھی امریکی حکام کی جانب سے دنیامیں اپی متعدد شکستوں کی پردہ پوشی کرنے کی ناکام کوشش ہے۔یہی اصل میں امریکی نام نہاد امن منصوبہ کی حقیقت بھی ہے۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

 

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close