Featuredبلاگ

یوم القدس کیوں منایا جاتا ہے؟

مقبوضہ بیت المقدس مسلمانوں سمیت تین مذاہب کے پیروکاروں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

یوم القدس سے مراد مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس او ر انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین ہی ہے

سر زمین  فلسطین انبیاء کی سر زمین کہلاتی ہے ، ہمارا قبل اول اور دیگر کئی انبیاء کی قبور اسرائیلیوں کے قبضے میں ہیں۔

بیشتر مذاہب کے انبیاء کی پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی، اس لیے یہ زمین تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مُتبرک ہے۔

سرزمین مقدس فلسطین اور اس کے باسی سنہ 1948ء سے عالمی سامراج کی شیطانی چالوں کا نشانہ بن کر یہاں قائم کی جانے والی ایک یہودیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہیں ۔

مسلمانوں کے لیے سرزمین فلسطین اور مسجداقصیٰ معراج النبیﷺ کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔

عیسائیوں کے لیے یہ جگہ حضرت عیسٰی روح اللہ اور یہودیوں کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام کی نسبت سے منسوب ہے۔ یہودیوں اورعیسائیوں کے لیے یہ زمین مسلمانوں کی طرح متبرک ہے۔

بیت المقدس، القدس، یروشلم، شہر تو ایک ہے مگر نام کئی ہیں۔ اس شہر میں موجود مسجد اقصی وہ مسجد ہے، جو اللہ کے پیغمبر حضرت سلیمان علیہ سلام نے جنات سے تعمیر کرائی تھی۔ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ شب معراج کو اسی مسجد میں تشریف لے گئے، یوں اس مسجد کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔

سرزمین مقدس پر مسلمانوں کا کنٹرول ایک ہزار دو سو چھتیس سال بعد یعنی بارہ صدیوں اور ساڑھے تین عشروں سے زائد رہا۔ اس لیے اسلامی دعویٰ دیگر مذاہب کی نسبت زیادہ وزنی اور منطقی ہے۔

ورچوئل یونی ورسٹی  کے مطابق زمانہ قدیم سے یہ شہر موجود رہا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ساڑھے چار ہزار برس قبل بھی یہ علاقہ موجود تھا۔ آج بھی دنیا کا سب سے پرانا شہر یہیں موجود ہے۔

یہاں پہلی مرتبہ تعمیرات ڈھائی ہزار برس قبل مسیح ہوئیں، اٹھارہ سو سال قبل یہاں پہلی دیوار تعمیر کی گئی۔ بارہ سو قبل مسیح سے قبل انسان لوہے کے دور میں داخل ہوا، یہودی عالموں کے مطابق اس جگہ کو کنعانیوں نے فتح کیا، یہ نام انہوں نے ان سے ہی پایا ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ قرآن میں موجود ہے وہ بھی یہاں بادشاہ رہے، پھر حضرت موسیٰ نے بھی یہیں فرعون سے جنگ کی۔

چودہ سو سال قبل خطہ عرب میں حضورﷺ کی آمد کے بعد مسلمان مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے، پھر حکم کے مطابق قبلہ کعبے کی جانب مبذول ہوگیا۔ مسجد نبوی سے مسجد اقصیٰ اور پھر ساتوں آسمانوں تک حضورﷺ کا سفر تمام حدیث اور قرآن سے ثابت ہے۔

جنگ عظیم اول کو بہانہ بناکر بے شمار یہودیوں کی سرزمین فلسطین کی طرف ہجرت کرائی، یون تقریباً چھ لاکھ یہودیوں کی آبادکاری فلسطین میں ممکن بنائی گئی۔

برطانیہ کے فاتح چرچل نے کہا وہ یہودیوں کے الگ ملک کی حمایت کرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہولو کاسٹ کا ڈھونگ رچایا گیا اور پھر 14 مئی 1948 کو برطانیہ نے اعلان کیا کہ ہمارا فلسطین پر قانونی قبضے کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے، اسی دن یہودیوں نے اپنے الگ ملک کا اعلان کیا، جس کا نام اسرائیل رکھا گیا۔

مسلم امہ نے عالمی دہشت گرد امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل سے فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے یوم القدس شروع کیا ، جس میں اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے قبضے سے فلسطین کو چھڑایا جائے گا۔

امام خمینی نےفرمایا : جمعتہ الوداع یوم القدس”جمعتہ الوداع یوم القدس ہے یوم اللہ ہے یوم رسول اللہ ہے یوم اسلام ہےجو اس دن کو نہیں مناتا وہ استعمار کی خدمت کرتا ہے”۔

آج بھی اسرائیل کا وجود مسلمانوں کی جگر میں تیر کی طرح اٹکا ہوا ہے۔

رپورٹ: فخر زیدی

 

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close