Featuredاسلام آباد

جب وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نظام کام نہیں کر رہا وہ اسے تبدیل کردیتے ہیں

 اسلام آباد: وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’جلد گوادر کا دورہ کروں گا تاکہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کا معائنہ کرسکوں، جلد چین کا بھی دورہ کروں گا

چین کی کمیونسٹ پارٹی کی عوام دوست پالیسی اور چین کی ترقی میں کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مغربی جمہوریت کسی بھجی معاشرے کی ترقی کا بہترین نظام ہے تاہم چین کی کمیونسٹ جماعت (سی پی سی) نے ایک متبادل نظام دیا ہے جس نے تمام مغربی جمہوریتوں کو مات دی ہے۔

جس معاشرے میں حکمران طبقے کا احتساب ہو اور میرٹ ہو وہ کامیاب ہوتا ہے، اب تک یہ خیال تھا کہ جمہوریت کے ذریعے میرٹ پر حکمران منتخب ہوتے ہیں اور پھر اس قیادت کا احتساب بھی کیا جاسکتا ہے۔
’تاہم سی پی سی نے انتخابی جمہوریت کے بغیر تمام مقاصد زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کیے ہیں‘۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران دیکھا کہ انکا ٹیلنٹ کی تلاش اور پھر اس کی تربیت کرنے کا نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے‘۔
’تیسری بات یہ ہے کہ یہ بہت لچکدار نظام ہے، جب وہ کوئی چیز تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ نظام اس کی حمایت کرتا ہے‘۔
’ہمارے معاشرے اور یہاں تک کہ مغربی جمہوریتوں میں کسی نظام میں تبدیلی بہت مشکل ہے، آپ ہمیشہ وہ نہیں کرسکتے جو معاشرے کے لیے بہتر ہو‘۔
چین نے اس لیے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ وہ اپنے نظام میں تیزی سے تبدیلی لاتے ہیں، جب وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نظام کام نہیں کر رہا وہ اسے تبدیل کردیتے ہیں‘

یہ بھی پڑھیں:اس نظام کو دھکا لگا تو سیاستدان کھیل سے باہرہو جائیں گے‘ آصف زرداری کو خدشہ لاحق

چوتھی بات طویل المدتی منصوبہ بندی ہے، انتخابی جمہوریت میں صرف اگلے 5 سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘۔
پاکستان اور چین کے قریبی سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’سی پیک کا اگلا مرحلہ پاکستاب کے لیے بہت حوصل افزا ہے، ہمارے پاس خصوصی اقتصادی زون ہوں گے، ہمیں امید ہے کہ چینی صنعت ان خصوصی زونز کی طرف متوجہ ہوگی، ہم انہیں مراعات دیں گے‘۔
پاکستان میں لیبر سستی ہے اور امید ہے کہ چینی صنعتکار اس طرف متوجہ ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ ہم چین سے زراعت کے شعبے میں تعاون کے خواہاں ہیں، پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور ہم نے اپنی زرعی پیداوار بڑھانے پر خاص توجہ نہیں دی، امید ہے کہ ہم چین کی جدید زرعی مہارت سے استفادہ کرسکتے ہیں‘۔
چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت کے کے انداز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی جس عمل کے ذریعے اس مقام تک پہنچے ہیں اس کے لیے انہوں نے 30 سال کی جدو جہد کی، انہوں نے دیہات کی سطح

سے جدوجہد کا آغاز کیا اسی محنت سے وہ لیڈر بنے‘۔
’اس قسم کا عمل بہت ساری انتخابی جمہوریتوں میں ناپید ہے، امریکی صدر کو اس قسم کی سخت محنت اور جدو جہد سے نہیں گزرنا پڑتا ہے‘

چینی قیادت جب اعلیٰ ترین مقام پر پہنچتی ہے تو انہیں بھرپور تجربہ حاصل ہوچکا ہوتا ہے، وہ نظام کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہ۷ے کہ نچلی سطح پر لوگ کیسی زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ غربت کے خاتمے میں کامیاب رہے‘۔

دنیا چین کے بارے میں جو بھی سوچے ہر ایک چینی صدر کی کامیابیوں کو سراہے گا، صدر شی جن پنگ نے یہ دنیا کو ثابت کیا ہے‘۔

چین کی جانب سے پاکستان کے لیے کورونا ویکسین سمیت 8 پروگراموں کے بارے میں سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح چین نے کورونا کا مقابلہ کیا وہ منفرد تھا‘۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close