Featuredاسلام آباد

جامعہ حفصہ پر افغان طالبان کا پرچم

اسلام آباد: لڑکیوں کے مدرسے جامعہ حفصہ پر ایک بار پھر افغان طالبان کا پرچم لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کوشش پر لال مسجد سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالعزیز کے خلاف مقدمہ درج

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ تیسرا موقع ہے کہ جامعہ حفصہ پر ایسے پرچم لہرائے گئے ہیں۔

ترجمان جامعہ حفصہ و لال مسجد شکیل غازی کے مطابق ’امارات اسلامیہ کے جھنڈے سنیچر کو فجر کے وقت لگائے گئے۔‘

اس جھنڈے کو ایک بار پھر لگانے کے پیچھے جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی انتظامیہ کا مطالبہ ہے کہ ’پاکستان میں اسلامی نظام متعارف کیا جائے۔

سنیچر کو سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اور وفاقی انتظامیہ مدرسے کی انتظامیہ سے بات چیت کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ ترجمان جامعہ حفصہ و لال مسجد شکیل غازی کے مطابق سابق خطیب مولانا عبدالعزیز ’بضد ہیں‘ کہ وہ ’اس بار پرچم نہیں ہٹانے دیں گے۔‘

ماضی میں یہ پرچم مسجد کی انتظامیہ کی ضلعی انتظامیہ سے بات چیت کے بعد یہ کہہ کر ہٹوا دیا گیا تھا کہ ان کے مطالبات پر ’اعلی سطح کے افسران تک پہنچائے جائیں گے۔‘

ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسر نے بتایا ہے کہ سنیچر کو نصب کیا جانے والا پرچم بھی ہٹا دیا گیا ہے اور مولوی عبدالعزیز کے خلاف اس حرکت پر متعلقہ قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔
’صبح اطلاع ملنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر سمیت ہم سب یہاں پہنچے ہیں۔ بظاہر کوئی چھوٹا سا معاملہ لگتا ہے لیکن بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑ ھیں : مولانا عبدالعزیز ایک اور بڑا تنازع کھڑا کرنے کیلئے تیار ہوگئے

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں مولانا عبدالعزیز کو پولیس اہلکاروں سے مخاطب ہو کر یہ کہتے سنا جا سکتا ہے ’طالبان آئیں گے، پاکستان کے طالبان بھی آپ کا حشر کر دیں گے انشا اللہ۔ ہاتھ تو لگاؤ ذرا!‘
ترجمان جامعہ حفصہ و لال مسجد شکیل غازی نے بتایا کہ اب تیسری بار جھنڈے لگانے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے کہ ’پہلے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور پاکستان میں اسلامی نظام متعارف کرایا جائے۔‘
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے بھی جامعہ حفصہ کی عمارت پر اسلامی امارات کا پرچم لہرایا گیا تھا۔

کیا دوبارہ ایسا کرنے کی ایک وجہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شکیل غازی نے کہا کہ ’ہم نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
’یہ پرچم جس پر کلمہ لکھا ہے، ہم اس کو تسلیم کرنے اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔‘

اس سے پہلے جب جامعہ حفصہ پر طالبان کے جھنڈے لگائے گئے تھے تو اس وقت ترجمان نے بتایا تھا کہ ’یہ جھنڈے کسی تقریب کے لیے لگائے گئے‘ اور اسلام آباد کی انتظامیہ سے بات کرنے کے بعد یہ بات رفع دفع ہوگئی تھی۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے گرد پولیس کی نفری کافی عرصے سے تعینات ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2007 میں لال مسجد میں فوجی آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے بقول خواتین بھی شامل تھیں تاہم ضلعی انتظامیہ اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔

مولانا عبدالعزیر اس آپریشن میں خواتین کا برقعہ اوڑھ کر فرار ہو گئے تھے جبکہ ان کی والدہ اور بھائی اس آپریشن میں ہلاک ہو گئے تھے۔

مولانا عبدالعزیز نے دو مختلف مقدمات سے ضمانت ملنے کے بعد سنہ 2016 میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف سمیت لال مسجد آپریشن کے تمام کرداروں کو معاف کرنے سے متعلق بیان دیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ وہ سنہ 2007 میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف فوجی آپریشن کرنے والے سابق فوجی صدر پرویز مشرف سمیت دیگر تمام کرداروں کو معاف کرنے کو تیار ہیں۔

جن دو مقدمات میں ان کی عبوری ضمانت منظور کی گئی ان میں سول سوسائٹی کے کارکن کو دھمکیاں دینے کے علاوہ مذہبی منافرت اور حکومت کے خلاف شرانگیز تقاریر کرنے کے مقدمات شامل تھے۔

تھانہ آبپارہ کے انچارج نے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں مقدمات میں مولانا عبدالعزیز کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

پولیس افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان مقدمات میں اگر اُنھیں گرفتار کیا جاتا تو اس سے وفاقی دارالحکومت میں امن عامہ کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close