Featuredپنجاب

ہمیں تو بس یہی بتایا گیا کہ شہادت کی اچھی موت ہوئی ہے

لاہور: ہر ہفتے کی رات ان کے والد کانسٹیبل خالد جاوید گھر آ جاتے تھے اتوار کی چھٹی اپنے بچوں کے ساتھ پسرور کے علاقے چوبارہ میں اپنے گھر پر گزارتے اور پیر کی صبح دوبارہ واپس لاہور لوٹ جاتے تھے

اس روز جب محمد اویس نے اپنے والد کو فون کیا تو انھیں قدرے مایوسی بھی ہوئی اور دھڑکا سا بھی لگ گیا۔ ان کے والد کی ڈیوٹی مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ممکنہ لانگ مارچ کے راستے پر لگا دی گئی تھی۔

تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان نے لاہور میں ملتان روڈ پر واقع اپنے مرکز کے سامنے چند روز سے احتجاجی دھرنا دے رکھا تھا اور اس دن ان کی طرف سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان متوقع تھا۔

رواں برس اپریل میں ٹی ایل پی اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں تو کئی پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

17 سالہ محمد اویس اب اضطراب کا شکار تھے شام کا وقت تھا، انھوں نے ایک مرتبہ پھر والد کو فون کیا۔ ‘ابو نے بتایا کہ بیٹا جنگ شروع ہو گئی ہے۔

ٹی ایل پی نے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں ان کے کارکنان اپنے راستے میں رکھی رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے میو ہسپتال کے قریب اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔

کانسٹیبل خالد جاوید بھی وہاں موجود تھے۔ لانگ مارچ کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا۔ نتیجتاً پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔

یہ بھی پڑ ھیں : پنجاب پولیس کے اے ایس آئی کو ٹنڈو محمد خان سے اغوا کرلیا گیا

گھبراہٹ کے عالم میں محمد اویس نے ایک مرتبہ پھر اپنے والد کو فون کیا مگر اس مرتبہ کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ کوشش کرتے رہے مگر فون نہیں مل رہا تھا۔

‘میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اور بہت سخت بے چینی کی وجہ سے میرے پیٹ میں درد ہونا شروع ہو گیا تھا۔
اسی دوران وہ اپنے فون میں بیلنس لوڈ کروانے ایک قریبی دکان پر گئے تھے کہ وہاں لگے ٹی وی پر انھوں نے بریکنگ نیوز چلتے دیکھی۔ ‘پولیس کے دو اہلکار مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔’

محمد اویس واپس گھر کی طرف دوڑے تھوڑی ہی دیر میں ان کے گھر تک اطلاع پہنچ گئی تھی۔ کانسٹیبل خالد جاوید ہلاک ہونے والے ان دو اہلکاروں میں شامل تھے۔

محمد اویس نے نم آنکھوں، کانپتی آواز میں بتایا کہ ‘میرے لیے وہ وقت بیان کرنا بھی مشکل ہے جب میں نے وہ خبر سنی۔ ان کی شہادت سے آدھا گھنٹا پہلے میری ان سے بات ہوئی تھی۔

کانسٹیبل خالد جاوید ‘ہمارے گھر کے واحد ایسے کفیل تھے جن کی وجہ سے گھر کا سرکل چل رہا تھا۔ ان کے جانے سے اب ہمیں مشکلات ہوں گی۔
ٹی ایل پی کے بنیادی مطالبات تھے پاکستان فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کرے اور ان کے سفیر کو ملک سے نکال دے۔ اور یہ کہ گزشتہ چند ماہ سے جیل میں قید ٹی ایل پی کے سربراہ حافظ سعد رضوی کو رہا کیا جائے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close