خواجہ آصف نے ضمانت حاصل کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی
لاہور(27 مارچ ۔2021ء) مسلم لیگ (ن) کے زیر حراست رہنما خواجہ آصف نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت حاصل کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے. عدالت عالیہ میں خواجہ آصف نے ضمانت کی درخواست اپنے وکیل حیدر رسول مرزا کی وساطت سے دائر کی، انہیں گزشتہ برس دسمبر کے اواخر میں اسلام آباد سے گرفتار کر کے نیب لاہور منتقل کردیا گیا تھا ضمانت کے لیے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار قومی اسمبلی ایک سینیئر رکن اور سیالکوٹ حلقہ این اے 73 کے عوام کی ترجمانی کرتے ہیں ساتھ ہی ایوانِ زیریں میں اپنی جماعت کے پارلیمانی رہنما بھی ہیں.
درخواست میں کہا گیا کہ سال 2017 میں سیاسی حریف عثمان ڈار نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے مجھ پر الزام لگایا کہ پاکستان میں ایک عوامی عہدے پر فائز رہتے وقت میرے پاس اقامہ بھی تھا. اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملے زیر سماعت تھا اسی دوران عثمان ڈار نے چیئرمین نیب کے پاس بھی انہی الزامات پر مشتمل درخواست دائر کی درخواست میں کہا گیا کہ اپریل 2018 میں ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو نااہل قرار دیا جس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور عدالت عظمیٰ نے وہ درخواست قبول کرلی.
درخواست میں کہا گیا کہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں حل ہوجانے کے باوجود نیب لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے سیاسی حریف کی درخواست پر انکوائری شروع کی درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب کے تمام نوٹسز پر عمل کرتے ہوئے تفصیلی جواب جمع کروایا گیا اور 2 سال کی انکوائری کے باوجود نیب ان کے خلاف کیس بنانے میں ناکام رہا. بعدازاں بغیر کسی جواز کے نیب راولپنڈی میں انکوائری ختم کرتے ہوئے نیب لاہور میں نئی انکوائری شروع کردی گئی تاہم یہاں بھی درخواست گزار نے ہر نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کروایا تاہم نیب نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ میں 29 دسمبر کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا.
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب کو کیس کا ریکارڈ پہلے ہی فراہم کر چکا ہوں، نیب نے انکوائری کے شکایت کنندہ کا کوئی ریکارڈ بھی احتساب عدالت میں پیش نہیں کیا، احتساب عدالت کے جج نے بھی نیب کے پاس تمام متعلقہ ریکارڈ ہونے کی آبزرویشن دی. الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے پاس بھی اثاثوں کی تمام تفصیلات موجود ہیں درخواست میں رہنما مسلم لیگ (ن) نے استدعا کی ان کے پاس سے کچھ ایسا برآمد نہیں ہوا جو ان کی گرفتاری کی بنیاد کے کرپشن الزام سے منسلک ہوسکے، چنانچہ ان کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی جائے.