بلوچستان

بلوچ علاقوں میں نام نہاد علیحدگی پسندوں اور پشتون علاقوں میں مذہبی دہشتگردوں سے جنگ جاری ہے، نواب ثناء اللہ زہری

وزیراعلٰی بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ پشتون اگر کسی کو مارے تو وہ دہشت گرد ہے اور بلوچ کسی کو مارے تو اسے ناراض بلوچ کہا جاتا ہے، جو کھلا تضاد ہے۔ دہشت گرد چاہے بلوچ ہو یا پشتون، وہ دہشت گرد ہوتا ہے، جس کا کوئی قوم، قبیلہ اور مذہب نہیں ہوتا۔ حکومت دو محازوں پر لڑ رہی ہے۔ بلوچ علاقوں میں نام نہاد علیحدگی پسندوں سے اور پشتون علاقوں میں مذہبی دہشت گردوں سے جنگ ہے۔ اللہ کے فضل سے نام نہاد آزادی کی تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے، جبکہ مذہبی دہشت گردی پر بھی جلد قابو پالیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی ایگزیکٹو باڈی کے اراکین سے ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر سرحدی امور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، صوبائی وزراء اور دیگر حکومتی عہدیداران موجود تھے۔ وزیراعلٰی نے امن و امان سمیت دیگر اہم صوبائی امور پر تفصیلی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کی پُر امن بلوچستان پالیسی کے تحت نام نہاد آزادی کی تحریک سے وابستہ 3 ہزار سے زائد افراد پہاڑوں سے اُتر کر ہتھیار ڈال چکے ہیں، جنہیں صوبائی حکومت مالی امداد فراہم کر رہی ہے اور انکے بچوں کو تعلیمی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے سروں کی قیمت پر بیرون ممالک عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والوں کی علیحدگی پسندی کی تحریک کو بلوچستان کے عوام کی ایک فیصد حمایت بھی حاصل نہیں۔ یہ عناصر را کی فنڈنگ سے بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

وزیراعلٰی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے فریم ورک کے اندر اور آئین کو مان کر واپس آنے والوں کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ تاہم جو لوگ واپس آنے کی بجائے حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، ان کے خلاف بھرپور کارروائی جاری رکھی جائے گی۔ شرپسندوں سے نہ تو کوئی سمجھوتہ ہوگا نہ ہی ہم ان کی بلیک میلنگ اور دباؤ میں آئیں گے۔ غیر جمہوری رویے، تشدد اور انتہا پسندی معاشرے کیلئے زہر قاتل ہیں، جس کے خاتمے کیلئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ جس میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ میڈیا اُنکی بات سنتا ہے جو شرپسندی اور دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں، لیکن اُن کی بات نہیں سنتا جو ملک کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ نوجوانوں کو باہر بیٹھ کر ایندھن کے طور پر استعمال کرنے والے بلوچستان کے عوام کے نمائندے نہیں۔ بلکہ حقیقی نمائندے اور وارث وہ ہیں جو یہاں بیٹھے ہیں۔ بلوچستان کی ایک منتخب اسمبلی ہے، جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے اور جنہیں عوام نے منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔ 2013ء سے قبل بلوچستان کے حالات خراب تھے۔ صوبے کے دور دراز علاقوں کے تعلیمی اداروں حتٰی کے بلوچستان یونیورسٹی میں بھی قومی ترانہ نہیں بجایا جاتا تھا۔ نام نہاد آزادی پسند برادر کُشی اور نہتے شہریوں کے قتل عام میں مصروف تھے۔ مزدوروں کو بسوں سے اُتار کر اور انکا شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں شہید کیا جاتا تھا۔ یہاں صدیوں سے آباد پنجابی اور دیگر اقوام بلوچستان کا حصہ ہیں۔ پاک افغان بارڈر آزاد ہے اور افغانستان سے مذہبی دہشت گرد آتے ہیں اورمعصوم لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close