بلوچستان

پرنٹ میڈیا پر فرقہ وارانہ مواد کی اشاعت روکنے کیلئے قرارداد منظور

بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی وفات، مذہبی منافرت اور فرقہ ورانہ مواد پر مبنی خبریں مضامین اور تجزیوں کی پرنٹ میڈیا میں اشاعت روکنے، دوران ملازمت وفات پانے والے پولیس ملازمین کے لواحقین کو بقایاجات کی ادائیگیوں میں تاخیر سے متعلق قرار دادیں منظور کرلی گئیں۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے طے شدہ احتجاجی پروگرام کے تحت اجلاس کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے اسمبلی اجلاس کا واک آؤٹ کیا۔ اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے باعث ملتوی کر دیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں عاصمہ جہانگیر سے متعلق مشترکہ تعزیتی قرار داد پیش کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے رکن رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے اپنی پوری زندگی ملک میں آئین و قانون، ایوان کی بالادستی، پائیدار جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے بے مثال جدوجہد میں گزاری۔ ان کی ناگہانی موت پر اہل بلوچستان کی جانب سے نہ صرف یہ ایوان افسوس کا اظہار کرتا ہے، بلکہ ان کی بے لوث سماجی ومعاشرتی خدمات پر انہیں خراج عقیدت بھی پیش کرتا ہے۔ مرحومہ کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلاء مدتوں پر نہیں ہوسکے گا۔ ایم ڈبلیو ایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید آغا رضا نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کی علمبردار تھیں، وہ کوئٹہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات کے بعد بھی کوئٹہ آتی رہیں۔ اپنے لئے تو ہر ایک جیتا ہے، مگر دوسروں کے لئے جینا اور ان کے مسائل کے حل کے لئے کوششیں کرنا انسانیت کی معراج ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے نظریات کا خیال رکھنا چاہیئے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیئے۔ جمہوریت کا حسن اختلاف رائے ہے، اگر ہمارے مرضی کے نتائج نہ آئیں تو اس پر سیخ پانا ہونا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے قرار داد کی حمایت کی۔ اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے کہا کہ مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے لئے بے لوث خدمات تھیں۔ میں خود بھی ان کے ساتھ کام کرتی رہی۔ ان جیسی شخصیات تاریخ میں کم ہی پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح انہوں نے آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے بے باک انداز میں جدوجہد کی، وہ قابل تحسین ہے۔ میری اللہ تعالٰی سے کی مغفرت کے لئے دعا ہیں۔

بعدازاں قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کرلیا گیا۔ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور آل پاکستان پیرا میڈیکس سٹاف فیڈریشن کی جانب سے کئی دنوں سے احتجاج کیا جا رہا ہے اور اب انہوں نے او پی ڈیز بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آنے والے غریب مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کے مختلف منظور شدہ مطالبات کی سمری وزیراعلٰی سیکرٹریٹ میں موجود ہے، جس پر کارروائی نہیں ہو رہی۔ لہٰذا ایوان کی کارروائی روک کر اس فوری نوعیت کے معاملے پر بحث کی جائے۔ اجلاس میں وقفہ سوالات موخر کیا گیا، جبکہ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے پشتونخوامیپ کے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ اس وقت پی اینڈ ڈی کو پرائیویٹ لوگ چلا رہے ہیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، اگر اپوزیشن کے اراکین حکومت میں آتے ہیں تو آجائیں، مگر وزیر کا حلف تو اٹھائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپوزیشن میں بھی رہیں اور پی اینڈ ڈی بھی چلائیں۔ صوبے کی روایات پامال کی جا رہی ہیں۔ اس لئے اس حوالے سے سپیکر رولنگ دے دیں۔ جس پر اسپیکر نے کہا کہ اس طرح سے رولنگ نہیں آسکتی۔ جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے الزامات عائد کئے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس وقت اپوزیشن میں ہیں، پی اینڈ ڈی کا قلمدان وزیراعلٰی کے پاس ہے۔ صرف کسی کے کسی کمرے میں بیٹھنے سے روایات پامال نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر صاحب جب وزیر تھے، تب بھی پرائیویٹ لوگ پی اینڈ ڈی میں دیکھے جاتے تھے۔ ہم اپوزیشن میں ہیں اگر حکومت میں جائیں گے تو یہ فیصلہ مولانا فضل الرحمان، پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع اور صوبائی امیر مولانا فیض محمد کریں گے۔ مجھے نہایت افسوس ہے کہ یہاں سینیٹ انتخابا ت کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں، حالانکہ سب کچھ ایک جمہوری اور آئینی طریقہ کار کے تحت ہوا ہے۔ 70 سال کی تاریخ میں پہلی بار ایک کلیدی عہدے پر بلوچستان کا فرزند منتخب ہو کر آیا ہے، مگر اس پر الزامات لگائے گئے ہیں۔

اداروں اور عدالتوں کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے، جو افسوسناک ہے۔ اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے پشتونخوامیپ کے عبیداللہ جان بابت نے کہا کہ گذشتہ دنوں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتون پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ منظور پشتون یہاں کے نوجوانوں کی دعوت پر آئے تھے۔ پورے ملک میں پشتونوں کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے، ایسا نہیں کہ ہم ملک دشمن ہیں۔ ہم صرف پشتونوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر احتجاج کررہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیں اتنا مجبور کر دیا جائے کہ ہم کسی اور آپشن پر غور کریں۔ اجلاس میں پشتونخوامیپ کی رکن عارفہ صدیق نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی منافرت اور فرقہ ورانہ مواد پر مبنی خبریں مضامین اور تجزیوں کی پرنٹ میڈیا میں اشاعت روکنے، بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کی تصاویر شائع نہ کرنے، سنسنی خیز تشدد، ظلم وزیادتی کے واقعات کے خبروں سے اجتناب کرنے، غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہوں پر مبنی خبروں کی حوصلہ شکنی کرنے، ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینے، خبروں اور تجزیوں میں عوامی مفاد کا خیال رکھنے اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑنے، آزادی صحافت کو یقینی بنانے اور اخبارات کے لئے مرتب ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے وفاقی حکومت نے آرڈیننس 2002ء کے تحت پریس کونسل آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا ہے۔ مذکورہ آرڈیننس کے سیکشن 3 کے جز 3 کے مطابق ملک کے تمام صوبائی دارالحکومت میں علاقائی دفاتر کا قیام عمل میں لانا ہے۔ اس مقصد کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کی پرانی بلڈنگ پریس کونسل آف پاکستان کے حوالے کردی گئی ہے، لیکن طویل عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے میں تاحال ریجنل/علاقائی دفتر کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ سید محمد رضا آغا نے کہا کہ یہ ایک اہم نوعیت کی قرار داد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سنسنی کی بجائے صرف خبریں عوام تک پہنچیں۔ قرار داد پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے، بعدازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close