گلگت بلتستان

گلگت بلتستان کے اختیارات واپس لینے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، حفیظ الرحمن

گلگت: وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرتی ہے یا گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کو مزید بااختیار بناتی ہے تو ہم حمایت کریںگے اور اگر ہمارے پہلے سے موجود اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم ہرگز قبول نہیں کریںگے۔ انہوں نے وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ اور مشیر اطلاعات شمس میر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے تحت ہم مکمل صوبائی نظام وہ بھی بغیر ذمہ داری کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہ ہمارا چیلنج ہے کہ اس سے زیادہ اختیار کوئی بھی وفاقی حکومت نہیں دے سکتی ہے، جو اختیارات دوسرے صوبوں کو حاصل ہیں، وہی تمام اختیارات ہمیں بھی حاصل ہیں، مگر اپوزیشن کے بعض ممبران گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کو پڑھے بغیر اس پر تنقید کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان کونسل سے ہمارے کچھ سنجیدہ معاملات تھے، اس وقت ہم نے کہا تھا کہ یہ جی بی کونسل ہے یا خٹک کونسل ہے، جی بی کونسل گلگت بلتستان ٹیکس وصول کرتی تھی، ہم وفاق کے ٹیکس پر پل رہے تھے اور ہمارے ٹیکس پر جی بی کونسل پل رہی تھی، مگر اب گلگت بلتستان آرڈر 2018ء میں گلگت بلتستان کونسل کا کردار طے ہے، جی بی کونسل صرف ایک مشاورتی ادارہ ہے، اس کے پاس کسی بھی قسم کے مالی اور انتظامی اختیارات نہیں ہیں، مگر کچھ قوتیں گلگت بلتستان کو ملنے والے ان اختیارات کو واپس لینے کیلئے سازش کر رہی ہیں، کچھ قوتیں نئی حکومت کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وفاقی حکومت کے پاس گلگت بلتستان کے حوالے سے کچھ نہیں بچا ہے۔

گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے تحت سیاحت، جنگلات اور معدنیات کے محکمے مکمل طور پر پر ہمارے پاس آئے ہیں اور اس حوالے سے صوبائی حکومت باقاعدہ پالیسی بھی بنا رہی ہے مگر اب ان اختیارات کو واپس لینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گورننس آرڈر 2009ء کے تحت گلگت بلتستان کی وفاقی حکومت وزارت امور کشمیر تھی، اب وفاقی حکومت سے مراد وہی ہے جو دیگر صوبوں کی ہے، گلگت بلتستان سے وزارت امور کشمیر کا عمل دخل ختم کیا گیا ہے، مگر یہ بات ان لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہی، جو وزارت امور کشمیر اور جی بی کونسل سے تین تین تنخواہیں لے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018کے تحت گندم پر سبسڈی برقرار ہے گلگت بلتستان کو پانچ سال کیلئے ٹیکس فری کر دیا گیا ہے، این سی پی گاڑیوں کو تحفظ دیا گیا ہے، گورننس آرڈر 2009ء میں گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کا کوئی ذکر نہیں تھا جبکہ گلگت بلتستان آرڈر2018ء میں جگہ جگہ گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ گورننس آرڈر2009ء میں گلگت بلتستان کے اداروں میں پالیسی بنانے کی کوئی گائیڈ لائن نہیں تھی جبکہ 2018ء میں پالیسی بنانے کا اختیار تسلیم کیا گیا ہے۔ گورننس آرڈر 2009ء کے تحت کسی بھی صوبے سے تعلق رکھنے والا شخص گلگت بلتستان کا گورنر بن سکتا تھا، مگر 2018ء میں گلگت بلتستان کا ڈومیسائل رکھنے والا شخص ہی گلگت بلتستان کا گورنر بن سکتا ہے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سپریم کورٹ گلگت بلتستان کو بے اختیار کرنے نہیں بلکہ بااختیار بنانے کیلئے کیس کی سماعت کر رہی ہے، لیکن اگر سپریم کورٹ سے ایسا فیصلہ آجائے جس سے گلگت بلتستان کو مزید بے اختیار کیا جاتا ہے یا گلگت بلتستان کونسل کو اصلی شکل میں بحال کرنے کی کوشش ہوئی تو ہم سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کریںگے۔ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سابق وفاقی حکومت اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کرکے منظوری حاصل کرنا چاہتے تھے، مگر بعد میں حالات ایسے بنے کی وفاق کے تمام ادارے ایک صفحے پر نہیں تھے اور اپوزیشن نے تعاون سے انکارکر دیا، جس کی وجہ سے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء جاری کرنا پڑا۔

گلگت بلتستان کو حقوق دینے کے لئے سابق وفاقی حکومت اور مسلم لیگ (ن ) کے قائد میاں نواز شریف آئین پاکستان کے شق 258 اور 257 میں ترمیم کرنا چاہتے تھے، مگر اس وقت وفاقی حکومت مختلف تنازعوں میں گری ہوئی تھی، مگر اس کے باوجود وفاقی حکومت نے ہمیں کہا کہ آپ اپوزیشن سے بات کریں، اگر وہ قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کو آئینی حقوق سے متعلق پیش کی جانے والی بل کی حمایت کرنے پر رضا مند ہیں تو ہم اس بل کو قومی اسمبلی اورسینٹ میں پیش کریں گے، ورنہ ہم ایک اور تنازعے میں پڑنا نہیں چاہتے، جس پر میں نے مسلم لیگ (ن) کے بعض دیگر اراکین کے ہمراہ خورشید شاہ اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقات کی اور گلگت بلتستان کی آئینی حقوق پر تعاون مانگا، مگر انہوں نے صاف بتا دیا کہ اس صورتحال میں ہم اسمبلی میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بل کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت عمران خان کی حکومت ایک صفحے پر ہے، یہ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے مسئلے کو قومی اسمبلی میں پیش کرسکتی ہے، مگر سو دنوں میں موجودہ حکومت نے اسمبلی کا ماحول اتنا خراب کیا ہے کہ ابھی تک ایک ایکٹ بھی منظور نہیں ہوا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close